مصنف – محمد فرقان فلاحی
بسم اللہ الرحمن الرحیم
ہمارے گھر سے کچھ ہی فاصلہ پر آٹے کی چکی (flour millجسے ہمارے علاقہ میں "گرنی”کہا جاتا ہے) ہے۔ بچپن میں جب بھی آٹے کی ضرورت ہوتی تو گھر میں امی اور بہنیں باقاعدہ گیہوں چننے کے لیے بیٹھتے، ایک مخصوص چھنی سے انہیں چھانا جاتا، مٹی کے چھوٹے کنکر وغیرہ الگ کیے جاتے، پھر گیہوں کو کسی برتن میں یا بڑے تھیلے میں ڈال کر ہم اس گرنی پر لے جاتے اور پھر ان کی پسوائی کے بعد آٹا لے کر گھر آتے تھے۔
بچپن میں کبھی یہ بھی دیکھا کہ ہم گیہوں لے کر گئے اور دیکھا کہ چکی پوری کھلی پڑی ہے، کاریگر آیا ہوا ہے اور وہ چکی کے دونوں پاٹو ں پر اپنے اوزار کی مدد سے چھوٹی چھوٹی آڑی ترچھی لکیریں مار رہا ہے۔ اس وقت کچھ سمجھ میں نہ آتا تھا کہ یہ سب کیا ہو رہا ہے لیکن انتظار ہوتا تھا کہ جلد از جلد یہ مرحلہ پورا ہو ؛ تاکہ ہمیں آٹا جلدی مل جائے۔
آج بہت عرصے بعد پر اسی گرنی پر جانے کا اتفاق ہوا، ہمارے گیہوں کی پسوائی میں تھوڑا وقت تھا، چنانچہ وہیں انتظار کرتے کھڑے ہو گئے کہ پسوائی ہونے کے بعد آٹا ساتھ لے جائیں گے۔ اس دوران وہاں کھڑے کھڑےمجھے زندگی کے یہ اہم سبق ملے:
- میں نے دیکھا کہ اس گرنی میں موجود تقریباً ہر چیز پر آٹا جما ہوا ہے۔ پانی کے جگ سے لے کر اوپر چھت پر موجود پنکھے تک پر کہیں نہ کہیں آٹے کی باریک یا موٹی تہہ جمی ہوئی تھی۔ یہاں تک کہ وہاں کام کرنے والے شخص نے سر پر جو کپڑا لپیٹ رکھا تھا اس پر بھی آٹے کے اثرات نظر آ رہے تھے۔
اس سے مجھے یہ سبق ملا کہ جب کوئی شخص کسی خاص ماحول میں زیادہ رہتا ہے تو اس شخص پر غیر محسوس طور پر اس ماحول کا اثر پڑنے لگتا ہے۔اگر کوئی انسان اچھائیوں کے ماحول میں رہے گا، تو خود بخود اس کے دل میں خیر کا جذبہ پیدا ہوگا، اس کی طبیعت خیر کے کاموں کی طرف راغب ہوگی ؛ جب کہ اگر کوئی انسان برائیوں کے ماحول میں رہنے لگے تو پھر برائیوں سے اسے نفرت نہیں ہوگی، گناہ کے کام کر کے ا س کی طبیعت میں وحشت نہیں ہوگی۔
- جس مشین میں گیہوں پیسے جا رہے تھے اس کی ترتیب یوں تھی کہ اوپر کی جانب سے گیہوں ڈال دیے جاتے اور نیچے کی جانب سے آٹا نکلتا جاتا۔ میں نے دیکھا کہ جس حصے سے آٹا نکل رہا ہے اس کے اطراف میں ایک بڑا کپڑا لپیٹ دیا گیا ہے؛ تاکہ آٹا اڑ کر ضائع نہ ہو بلکہ نیچے رکھے ہوئے برتن میں ہی جائے۔
اس سے یہ بات سمجھ میں آئی کہ انسان کو اپنی ہر قسم کی محنت میں اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ اس کی محنت کا کوئی حصہ ضائع نہ ہونے پائے۔ اسے چاہیے کہ وہ اپنی محنت کے اطراف میں کوئی ایسی حصار لگائے کہ اس سے مطلوبہ فوائدضائع نہ ہو جائیں بلکہ مکمل فائدہ حاصل ہو۔
اسی طرح یہ بات بھی سمجھ میں آئی کہ بہت ساری مرتبہ ہمیں ظاہر میں کوئی کام بہت چھوٹا سا نظر آتا ہے، لیکن اس کے پیچھے کتنی محنت، کتنی مشقت چھپی ہوتی ہے وہ ہم سے اوجھل ہوتا ہے۔ جیسے میں نے دیکھا کہ گیہوں تیزی سے مشین کے نچلے حصے کی جانب گر رہے ہیں اور فوراً آٹے کی شکل میں برتن میں جمع ہو رہے ہیں۔ لیکن گیہوں سے آٹا بننے کا یہ سفر آسان نہیں ہے۔ مشین کے باہری حصے کے اندر موجود ایک نظام مستقل تیز رفتاری سے کام کر رہا ہے جو ہمیں نظر نہیں آ رہا ہے۔
اس سے یہ سبق ملا کہ ہمیں کسی بھی انسان کی کسی بھی کوشش کو کم نہیں سمجھنا چاہیے۔ بسا اوقات ہمیں لگتا ہے کہ یہ کونسا بڑا کام ہے، یا ہم سمجھتے ہیں کہ یہ تو اتنا سا کام ہے، لیکن اسی کام کے لیے اس نے کتنی مشقت کی ہے، کتنی تکلیفیں برداشت کی ہیں وہ ہماری نظروں کے سامنے نہیں ہوتا ہے۔
- جس چیز کو میں بچپن میں نہیں سمجھ سکا تھا وہی چیز آج ایک سبق دے گئی۔ بچپن میں چکی کے پاٹوں پر دیے جانے والے نشانوں کا مطلب
- جب اپنے آٹے کا برتن اٹھایا تو وہ گرم تھا،