مصنف – محمد فرقان فلاحی
بسم اللہ الرحمن الرحیم
انسانی تاریخ کا مطالعہ کرنے پر یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ ابتداء ہی سے فطرت انسانی میں اپنے خالق و پالنہار کی محبت اور اس تک پہنچنے کی لگن موجود ہے ، جب یہ محبت اور لگن صحیح راہ پر ہوتی ہے تو انسان کو اپنے وقت کا منفرد انسان بنا دیتی ہے ، لیکن اگر غلط راہ پر ہوتو پھر یہی چیز اس کی دینوی و اخروی تباہی کا سبب بن جاتی ہے ؛ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ بت پرستیکی بیماری میں مبتلا حضرات اپنے ہاتھوں سےمٹی کی مورت بنا کر اس کی تعظیم کرتے ہیں اور اپنی روح کو تسکین پہنچانے کی جھوٹی کوشش کرتے ہیں، جب کہ تاریخ کے صفحات کی ورق گردانی کریں تو یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ مذہب اسلام کی آمد سے پہلے بھی دیگر سماوی شریعتوں میں بت پرستی وعنصر پرستی کو ممنوع قرار دیا گیا تھا، حضرت ابراہیم ؑ نے اپنے والد آزر کو (جو صرف بت پرست ہی نہیں بلکہ بت گر بھی تھے) بتوں کی پرستش سے روکا، حضرت موسیؑ نے سامری کے تیار کردہ بچھڑے کو حضرت موسیٰ نے نذر آتش کرکے دریا کے موجوں کے حوالہ کردیا، الغرض ہر دور میں اس عمل کوناپسندیدہ اور گناہ سمجھا گیا، لیکن اسلام کا ایک اہم امتیاز یہ بھی ہے کہ اس نے انسانی فطرت اور مزاج کو پیش نظر رکھتے ہوئے جہاں بت پرستی پر روک لگائی وہیں انسان کو اپنے رب سے جوڑنے اور اپنے رب کی رحمتوں اور برکتوں کے مشاہدہ کا موقع بھی فراہم کردیا، تاکہ وہ اپنی محبت کوراہ حق سے بھٹکنے نہ دے اور شاہراہ ہدایت پر چلتے ہوئے اپنی منزل تک پہنچ جائے۔
اسلام کی جانب سے دیا جانے والا وہ عظیم تحفہ حج کی شکل میں تھا، کہ اسلام نے اپنی بنیاد میں اس عظیم عبادت کو شامل کیا ، چنانچہ حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے جہاں اسلام کے پانچ بنیادی ستون شمار کروائے ہیں وہیں حج کو بھی ان میں شامل کروایا ہے، جس سے اس کی اہمیت و افادیت کا پتہ چلتا ہے ، ساتھ ہی ساتھ خود حضور اکرم ﷺ نے عملی طور پر ارکان حج ادا کر کے پوری امت کو حج کرنے کا صحیح طریقہ سکھا دیا، نیز چونکہ سفر حج از اول تا آخر مشقتوں بھرا ہوتا ہے کہ اپنے گھر بار سے کوسوں دور انسان اپنے بدن کو دو چادروں میں چھپائے ہوئے بغیر موسم کی پرواہ کرتے ہوئے خالق کائنات کے در پر پڑا رہتا ہے ، پھر کبھی اس کے گھر کا طواف کرتا ہے تو کبھی صفا مروہ پر دوڑتا نظر آتا ہے، پھراچانک کعبہ کی پر بہار رونقوں سے دور ایک لق و دق میدان میں جانے کا حکم ملتے ہی منیٰ پہنچتا ہے تو کبھی عرفات کے میدان میں آہ و زاری کرتا نظر آتا ہے ، پھر یہی شخص بعض مرتبہ شیطان کو کنکری مار کر اس سے اپنی ازلی عداوت کا ثبوت پیش کرتا نظر آئے گا ، پھر حضرت ابراہیم ؑ کے عہد سے چلی آرہی سنت مبارکہ کی یاد میں ایام قربانی میں جانور کی قربانی دے کر اپنے رب کے در بار میں اپنے احساسات و جذبات کی سوغات پیش کرتا ہے ، اور پھر ان تمام کے اعمال سے فارغ ہوکر اپنے بدن پر لگے میل کچیل کو صاف کرنے کی غرض سے بال ،ناخن وغیرہ صاف کرتا ہے جو گویا اس بات کا اظہار ہوتا ہے کہ حج کی عبادت نے باطن کو صاف کردیا ہے اور اب اپنے ظاہر کو بھی باطن کی طرح صاف ستھراکرنا ہے ۔
ظاہر سی بات ہے کہ جب اللہ رب العزت نے بندہ سے اتنی بڑی عبادت کروائی تو وہ اس کو انعام بھی اتنا بڑا ہی دے گا، تاکہ اس کی دلجوئی بھی ہوسکے اور اللہ تعالیٰ کی سخاوت و ذرہ نوازی بھی سمجھ میں آئے، چنانچہ اس حج کا انعام یہ دیا کہ اول تو تمام حاجیو ں کو یہ خوشخبری دے دی گئی کہ اس حج کرنے سے ان کے گناہ معاف ہوگئے اور وہ ایسے ہی پاک و صاف ہوگئے ہیں جیسے کہ ایک بچہ اپنی پیدائش کے وقت ہوتا ہے، لیکن واضح ہو کہ یہ فضیلت اسی وقت
حاصل ہوگی جبکہ پورے سفر حج کے دوران نہ کسی سے گالی گلوچ کی ہو اور نہ ہی کوئی برائی کا کام کیا ہو(دیکھئے :بخاری ، کتاب الحج ، باب فضل الحج المبرور، حدیث نمبر : ۱۴۴۹) نیز یہ بھی واضح رہے کہ اس حج سے صرف صغیرہ گناہ ہی معاف ہوں گے ، ورنہ حقوق اللہ اور حقوق العباد اور ان سے متعلق معاملات بہر حال باقی رہیں گے، (دیکھئے :البحر الرائق، کتاب الحج ،باب الاحرام:۲/۵۹۳،مطبوعہ بیروت ) دوسرا بڑا انعام یہ دیا جائے گا کہ اگر حج کو بالکل ویسے ہی ادا کیا جیسا کہ اللہ تعالیٰ کو مطلوب ہے، تب تو اللہ کی طرف سے جنت کا وعدہ ہے جو یقینا ًبہت بڑا انعام ہے، چنانچہ حضرت ابو ہریرہؓ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ حج مبرور کا بدلہ تو جنت ہی ہے:
’’والحج المبرور لیس لہ جزاء الا الجنۃ‘‘،(بخاری ، ابواب العمرۃ، باب وجوب العمرۃ و فضلھا، حدیث نمبر :۱۶۸۳)
اس سلسلہ میں دوسری اہم بات یہ بھی ہے کہ جہاں حج کرنے پر اتنا بڑا ثواب دیا جاتا ہے اور حاجی کو اتنی بڑی فضیلت حاصل ہوتی ہے وہیں استطاعت اور قدرت ہونے کے باوجود سفر حج کو مؤ خر کرنا اور حج نہ کرنا بہت بڑی محرومی کی بات ہے، خود حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے اس سلسلہ میں ارشاد فرمایا کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ اگر میں کسی بندہ کو جسمانی طور پرصحت مند رکھوں اور اس کا رزق بھی کشادہ ہو، پھر بھی اس کی زندگی کے پانچ سال اس حال میں گزر جاتے ہیں کہ وہ مجھ سے ملنے نہیں آتا تو یقیناً وہ محروم ہے۔ (دیکھئے :صحیح ابن حبان، حدیث نمبر :۳۷۰۳)
خلاصہ یہ کہ ہر ذی استطاعت مسلمان کو اپنی صحتمندی اور خوشحالی کے زمانے ہی میں بیت اللہ کی زیارت اور حج کی سعادت سے مشرف ہوجانا چاہئے، نیز اپنے سفر حج میں ہر قدم کو پھونک پھونک کر اٹھانا چاہئے کہ وہ زمین ایسی مقدس ہے کہ وہاں کسی قسم کی کوتاہی بہت بڑے نقصان کا سبب بن سکتی ہے اور ہلکی سی لغزش بھی بڑی ثابت ہوسکتی ہے؛لہٰذا تمام ارکان کو ان کی فضیلت کے استحضار کے ساتھ اور اللہ رب العزت کی قدرت کاملہ پر یقین رکھتے ہوئے ادا کیا جائے کہ وہی قبول کرنے والاہے اور تمام عبادتیں اسی کے لئے ہیں ۔