دنیا میں ایک عام دستور یہ ہے کہ جب کسی انسان میں اچھے اوصاف زیادہ مقدار میں پائے جاتے ہیں تواس کی تعظیم کے لئے سر خود بخود جھکا دئیے جاتے ہیں،اسی طرح جب کسی چیز میں اعلیٰ قسم کی عمدگی پائی جاتی ہے تو اسی کی جنس کی دوسری چیزوں پر اسے فوقیت دینے میں کوئی جھجک محسوس نہیں کی جاتی ،بسا اوقات اس سلسلہ میں غلو اور مبالغہ اس حد تک پہونچ جاتا ہے کہ بعض وہ خامیاں جو شخصیت کو مجروح کردیتی ہوں یا کسی چیز کی افادیت کو گھٹا دیتی ہوں ان سے بھی آنکھیں موند لی جاتی ہیں،جبکہ ہونا تو یہ چاہیے کہ جو اوصاف اچھے ہیں ان کی تعریف و توصیف کی جائے اور جو باتیں غلط ہوں ان پر مناسب انداز میں نکیر کی جائے تاکہ شخصیت میں نکھار آئے اورانگلی اٹھانے کے لئے کوئی موقع باقی نہ رہے۔
اگر ہم تاریخ کا مطالعہ کریں تو یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ اس دنیائے فانی میں نہ کوئی ملکی قانون اور نہ ہی کوئی انسانی تنظیم اس وصف کی حامل رہی ہے کہ وہ اجتماعی طور پر معاشرہ کو اخلاق حسنہ سے بھرنے اور رذائل سے پاک رکھنے کے جذبات سے اپنی کوشش کرتی ہو،سوائے رسول اللہ ﷺ کے اسوئہ حسنہ اور آپ کے طریقۂ زندگی کے کہ اس میں یہ بات بآسانی محسوس کی جاسکتی ہے کہ اسوئہ حسنہ کاامتیازی وصف یہی ہے کہ وہ نہ صرف انسان میں اخلاق حسنہ کی موتیوں کو پرونے کا کام کرتا ہے بلکہ انسان میں موجود بری عادات و اطوار کو نکال باہر کرنے کی صلاحیت بھی بدرجۂ اتم رکھتا ہے،سیرت رسول پر اگر سرسری نظر ہی ڈالی جائے تو پتہ چلتا ہے کہ عدل و انصاف،نرمی واعتدال،پاکیزگی وصفائی معاملات اور ان جیسی دیگر اچھی عادتیں ہی نہیں بلکہ مختلف سوچ اور فکرکے حامل اور جدا جدا تہذیب وطبقات سے منسلک افراد کے ساتھ حسن معاملہ کاطریقۂ عمل بھی سیرت کے خزانہ میں موجود ہے،نبی ﷺ کی ذات مبارکہ کو تکلیف دی گئی لیکن بجائے بدلہ لینے کے آپ کے صبر کا مظاہرہ دیکھنے کو ملتا ہے،آپ کے حقوق تلف کیے جانے پر آپ کا عفو و درگزر کا معاملہ سامنے آتا ہے، خود پر دوسروں کے جو حقوق تھے ان میں تو انصاف سے کام لیا اوراپنے جو حقوق اوروں پر تھے انہیں معاف کردیا،الغرض یہ سب باتیں ہمیں سیرت رسولﷺ سے سیکھنے کو ملتی ہیں،جن سے دلوں میں سیرت کی محبت اور نبی کی عظمت پیدا ہوتی ہے،مختلف النوع انسانوں کے درمیان عدل وانصاف کا طریقۂ کار جاننے کو ملتا ہے اور اپنے کسی عمل سے پیدا ہونے والی غلط فہمی کو دور کرنے کا سلیقہ آجاتا ہے،کیونکہ خود نبی ﷺ کی حیات طیبہ میں ایسے مواقع بھی آئے کہ بعض افراد نے کوئی ایسا عمل کر دیا جو بظاہر نہایت قبیح عمل تھا یا کسی بڑے نقصان کا سبب بن سکتا تھا لیکن رسول اللہ ﷺ نے حکمت عملی اختیار کرتے ہوئے ان غلطیوں کی کچھ ایسے انداز میں اصلاح فرمائی کہ سب کے دل صاف ہوگئے۔
قریش کو دیا اور ہمیں بھول گئے….:
حدیث کی کتابوں میں غزوۂ حنین میں حاصل شدہ مال غنیمت کی تقسیم کا واقعہ تفصیل سے نقل کیا گیا ہے کہ جب مال غنیمت موصول ہوا تو رسول اللہ ﷺ نے قریش میں سے نئے نئے اسلام میں داخل ہونے والے افراد کو اور دیگر حضرات کو اتنا مال دیا کہ بعض روایات میں آتا ہے کہ ایک ایک آدمی کو تقریباً سو سو اونٹ عطا کیے جبکہ انصار کو کچھ بھی نہیں دیا ،جس کا اثر یہ ہوا کہ انصار کے بعض حلقوں میںاس سے متعلق باتیں گردش کرنے لگیں،حد تو یہ ہوگئی کہ بعضوں نے یہاں تک کہہ دیا کہ اللہ اپنے رسول کو معاف فرمائے کہ وہ مال غنیمت کی تقسیم کے سلسلہ میں تعجب بھرا قدم اٹھا رہے ہیں،قریش کو تو خوب خوب دے رہے ہیں اور ہمیں محروم رکھ رہے ہیںجبکہ ہماری تلواروں سے ابھی تک ان کا(قریش کا) خون ٹپک رہا ہے،یہ کیا بات ہوئی کہ جب کوئی مشکل گھڑی آن پڑتی ہے تو ہمیں یاد کیا جاتا ہے اور مال غنیمت ہمیں چھوڑ کر تقسیم کردیا جاتا ہے،ہم صرف یہ جاننا چاہتے ہیں کہ تقسیم غنیمت کا یہ نیا طرز کس کا ایجاد کردہ ہے؟ اگر یہ اللہ تعالیٰ ہی کی طرف سے ہے تو ہم یقینا صبر کرلیں گے لیکن اگر یہ رسول اللہ ﷺ کی اپنی رائے پر مبنی ہے تو ہم اس سلسلہ میں آپ سے گفت و شنید کریں گے___دوسری جانب رسول اللہ کو انصار کی اس گفتگو کی خبر لگ گئی ،مزید یہ ہوا کہ حضرت سعد بن عبادہؓ جو انصار صحابہ میں ایک باوقار شخصیت سمجھے جاتے تھے وہ حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کیاکہ اے اللہ کے رسول!انصار کے کچھ لوگ آپ کی جانب سے صادر ہونے والے کسی معاملہ پر خفگی محسوس کر رہے ہیں،رسول اللہ ﷺ نے دریافت فرمایا کہ کس معاملہ پر؟حضرت سعدؓ نے بتایا کہ آپ نے جو مال غنیمت کی تقسیم میں اپنی قوم کو اور دیگرعرب قبائل کو دے کر انصار کو کچھ نہ دیا اس معاملہ پر،رسول اللہ ﷺ نے ان سے پوچھاکہ اے سعد! تمہارا ذاتی خیال کیا ہے؟سعد نے کہا: حضور! میں بھی تو اپنی قوم ہی کا ایک فرد ہوں (تو میں بھی یہی سوچتا ہوں) چنانچہ آپ ﷺ نے حضرت سعد ؓ کو حکم دیا کہ اپنی قوم کو ایک جگہ جمع کرو اور جب وہ جمع ہوجائیں تو مجھے اطلاع کرو،حضرت سعد ؓ نے تمام صحابہ کو ایک جگہ جمع کروایا جس میں انصار کے علاوہ کوئی اور شخص موجود نہ تھا اور پھر حضور ﷺ کو اطلاع دی کہ آپ کے حکم کے مطابق تمام انصاری صحابہ کو ایک جگہ جمع کرلیا گیا ہے،آپ ﷺ وہاں تشریف لے گئے اور جب اس کا یقین ہو گیا کہ ان میں کوئی غیر انصاری فردموجود نہیں ہے تو آپ خطاب فرمانے کے لئے کھڑے ہوئے اور اللہ تعالیٰ کی تعریف و توصیف کے بعد آپ نے فرمایا: اے انصار کی جماعت!کیا میں تمہارے پاس ایسی حالت میں نہیں آیا تھا کہ تم راہِ راست سے بھٹکے ہوئے تھے پھر اللہ تعالیٰ نے تمہیں ہدایت سے نوازا تھا،اور تم غربت زدہ تھے تو اللہ نے تمہیں تونگری نصیب فرمائی،اور تم آپس میں ایک دوسرے کے دشمن تھے لیکن اللہ تعالیٰ نے تمہارے درمیان الفت و محبت قائم کر دی؟؟؟ تمام انصار صحابہ نے بیک زبان جواب دیا کہ اے حضور! بے شک ایسا ہی تھا،اللہ اور اس کے رسول تو بڑے اعلیٰ اور بہترین احسان کرنے والے ہیں،پھر نبی ﷺ نے دریافت فرمایا: اگر میں کچھ پوچھوں تو جواب دو گے؟سب کہنے لگے :اے اللہ کے رسول! ہم کیا کہیں اور کیا جواب دیں؟رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: خدا کی قسم اگر تم چاہو تو یہ کہہ سکتے ہو (اور تم اپنی بات میں بالکل سچے رہوگے)کہ آپ تو ہمارے پاس ایسی حالت میں آئے تھے کہ خود آپ کی قوم نے آپ کو نکال باہر کیا تھا پھر ہم نے آپ کو پناہ دی تھی، اور آپ تو شکست خوردہ انسان کی طرح آئے تھے لیکن ہم نے آپ کے لئے دست ِتعاون بڑھایا تھا،اور آپ کی قوم نے تو آپ کو جھٹلا دیا تھا لیکن ہم ہی نے آپ کی تصدیق کی تھی،انصار صحابہ کہنے لگے کہ(اس میں ہمارا کوئی کمال نہیں ہے )یہ سب تو اللہ تعالیٰ ہی کا احسان ہے ،نبی ﷺ نے پھر پوچھاکہ تمہاری جانب سے جو بات مجھ تک پہونچی ہے اس کی حقیقت کیا ہے؟سب کے سب خاموش رہے کسی نے کچھ نہیں کہا، نبی پاک ﷺ نے دوبارہ پوچھا کہ تمہاری جانب سے پہونچنے والی بات کی حقیقت کیا ہے؟ تب انصار کے بعض سمجھدار حضرات نے کہا کہ اے اللہ کے رسول! ہم میں سے جو سردار قسم کے لوگ ہیں انہوں نے تو کچھ نہیں کہاالبتہ کچی عمر کے کچھ افراد نے یہ بات کہی ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے رسول کو معاف فرمائے کہ وہ مال غنیمت میں سے قریش کو تو دیتے ہیں اور ہمیں نہیں دیتے ہیںحالانکہ ابھی تک ہماری تلواروں سے قریش کا خون ٹپک رہا ہے، اس پر ر سول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ دیکھو!یہ جو قریش کے لوگ ہیں یہ جاہلیت کے دور سے اور مشکلات و پریشانیوں کے دور سے قریب ہیں،اور میں نے انہیں مالِ غنیمت میں سے دے کر ان کی دلجوئی کرنا اور ان کے نقصانات کی تلافی کرنا چاہا تھا،اے انصار کی جماعت! اسلام میں داخل ہونے والی ایک قوم کی دلجوئی کی خاطر دئیے گئے دنیوی مال کی وجہ سے تم مجھ سے نالاں ہو رہے ہو؟ ذرا یہ تو بتائو کہ کیا تم یہ پسند نہیں کرتے ہو کہ دوسرے لوگ تو اپنے گھروں کو بکریاں اور اونٹ لے کر لوٹیں اور تم اپنے گھروں کو اللہ کے رسول کو لے کر لوٹو؟ قسم بخدا جس چیز کو لے کر تم لوٹ رہے ہو وہ ان چیزوں سے کئی گنا بہتر ہے جنہیں دوسرے لوگ لے کر لوٹ رہے ہیں،اس ذات اقدس کی قسم جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے! اگر لوگ ایک راستے پر چلیںاور انصار اس کے علاوہ دوسرے راستے پر چلیں تو میں انصار ہی کے راستے کو ترجیح دوں، تم تو مجھ سے اتنے قریب ہو جیسے بدن سے لگا ہوا کپڑا ہوتا ہے،(سن لو کہ) اگر یہ ہجرت کا قضیہ نہ ہوتا تو شاید میں تو انصار ہی میں کا ایک فرد ہوتا،اے اللہ!انصار کے حال پراور انصار کی اولاد کے حال پر رحم فرمائیے____آپ ﷺ کا یہ اثر انگیز خطاب سن کر پوری قوم زار وقطار رو پڑی اور سب کے سب کہنے لگے کہ ہم اللہ اور اس کے رسول کی تقسیم پر راضی ہیں ، اب آپ کے مل جانے کے بعد ہمیں دنیا کی کوئی ضرورت نہیں۔ (دیکھئے:ابن ا لمنذر کی کتاب ’’الاوسط فی السنن‘‘،حدیث:۱۱۳)
اس پورے واقعہ کو پڑھنے کے بعد ذرا سی دیر کے لیے اپنے سر کو جھکا کر آنکھیں بند کرلیں اور ماضی کی جانب ایک جست لگائیں،پہونچئے مدینہ منورہ کی ان گلیوں میں جہاں سرور کائنات ﷺ نے ان انصاری صحابہ کو جمع کیا تھااور تصور کیجئے اس کیفیت کا جو اس خطاب کے بعد ان اصحاب رسول کی ہوئی ہوگی،اور دیکھئے کہ کیسے بہترین انداز میں رسول اللہ ﷺ نے تمام انصار صحابہ کے دلوں کو صاف کر دیا تھا ، اور کس مہارت سے آپ نے بعض انصاری حضرات سے انجانے میں سرزد ہونے والی خطا کی اصلاح فرمائی تھی کہ نہ وہ غلطی باقی رہی اور نہ ہی وہ جذبات باقی رہے جو اس غلطی کے پیچھے کار فرما تھے۔
مجھے زنا کی اجازت دیجیے!
مسند احمد بن حنبل میں حضرت ابو امامہ باہلی ؓ سے ایک عجیب واقعہ مذکور ہے،نقل کرتے ہیں کہ ایک بار ایک نوجوان شخص دربار رسالت میں آیا اور کہنے لگا کہ اے اللہ کے رسول! مجھے زنا کرنے کی اجازت دیجیے ،اس کا یہ جملہ سن کر مجلس میں موجود تمام صحابہ اسے تنبیہ کرنے لگے ،لیکن رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ اسے یہاں لائو،چنانچہ اسے آپ کے قریب بٹھادیا گیا،آپ ﷺ نے اس سے پوچھا: کیاتم اپنی ماں کے لیے اس عمل کو پسند کرتے ہو؟ وہ کہنے لگا: اے اللہ کے رسول! میری جان آپ پر قربان ہو بھلا میں یہ گھناونا عمل اپنی ماں کے لئے کیسے پسند کر سکتا ہوں،آپ ﷺ نے فرمایا کہ تمہاری طرح دوسرے لوگ بھی اپنی ماں کے ساتھ اس عمل کے کیے جانے کو ناپسند کرتے ہیں،پھر آپ ﷺ نے اس سے اس کی بیٹی، بہن،چاچی،پھوپھی اور ممانی کا تذکرہ کرتے ہوئے یہی سوال دہرایا اور وہ شخص ہر بار یہی جواب دہراتا گیا، پھر نبی ﷺ نے اپنا ہاتھ اس پر رکھا اور دعا فرمائی کہ اے اللہ! اس کے گناہوں کو معاف فرمائیے،اس کے دل کو پاکیزہ بنائیے اور اس کی شرمگاہ کی حفاظت فرمائیے؛چنانچہ وہ نوجوان شخص اس کے بعد سے دوبارہ کبھی کسی گناہ کی طرف متوجہ بھی نہیں ہوا۔(دیکھئے:مسند احمد،حدیث :۲۱۶۲۸)
ذرا اس نوجوان کے سوال پر غور کریں کہ کس گندے عمل کی اجازت مانگ رہا تھا، اور پھر اس عظیم الشان مصلح کے طریقۂ اصلاح پر نظر ڈالئے کہ کیسے منطقی انداز سے زنا کے ناپسندیدہ ہونے کو اس جوان کے دل و دماغ میں پیوست فرمادیا کہ وہ ہمیشہ کے لئے اس سے باز آگیا۔
جب دیہاتی نے مسجد نبوی میں پیشاب کر دیا:
حضرت انس ؓ بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ ہم لوگ رسول اللہ ﷺ کی خدمت میں مسجد نبوی میں بیٹھے تھے کہ اچانک ایک دیہاتی شخص مسجد میں آگیا اور ایک جانب کھڑے ہو کر پیشاب کرنے لگا،مسجد میں موجود صحابہ کرام اسے تنبیہ کرنے کے لئے دوڑے تو آپ ﷺ نے انہیں ایسا کرنے سے روکتے ہوئے فرمایا کہ اسے چھوڑدو تاکہ وہ پیشاب کرنے سے فارغ ہو جائے،جب وہ پیشاب کرچکا تو آپ ﷺ نے اسے بلا کر ارشاد فرمایا کہ یہ مسجدیں پیشاب و پاخانہ کے لئے مناسب جگہ نہیں ہیں،یہ تو اللہ تعالیٰ کے ذکر اور نماز و تلاوت قرآن کی جگہیں ہیں،پھر آپ نے کسی شخص کو حکم دیا کہ جس جگہ اس دیہاتی نے پیشاب کیا ہے اس پر پانی بہادیں،چنانچہ ڈول سے پانی لا کر اس جگہ کو صاف کر دیا گیا۔(دیکھئے:صحیح مسلم،حدیث:۲۸۵)
اس واقعہ کو دیکھیں کہ مسجد جسے ہم اللہ تعالیٰ کی عبادت کے لئے مخصوص جگہ سمجھتے ہیں اس میں ایک دیہاتی شخص نے اپنی لا علمی کی وجہ سے پیشاب کردیا تھا،رسول اللہ ﷺ نے اس دیہاتی کو نہ خود ہی سخت سست کہا اور نہ ہی صحابہ کو اجازت دی کہ وہ اس کے ساتھ سختی بھرا رویہ برتیں،بلکہ نہایت مشفقانہ انداز میں اسے یہ سمجھا دیا کہ مسجد یں عبادت کے لئے ہوتی ہیں ،اور جو جگہیں عبادت کے لئے خاص ہو جایا کر تی ہیں وہاں گندگی نہیں پھیلانا چاہئے۔
ان تمام واقعات سے اور ان جیسے اورواقعات سے جس اہم بات کی نشاندہی مقصود ہے وہ یہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اپنی موجودگی میں لوگوں سے سرزد ہونے والی غلطیوں اور کوتاہیوں کی اصلاح کے لیے کیسا طریقۂ کار استعمال فرمایا تھاکہ اس کی وجہ سے ایک جانب دلوں کی کدورت بھی دور ہوگئی ،اختلافات اور رنجشیں بھی مٹ گئیںتو دوسری جانب ان غلطیوں کی اصلاح بھی ہو گئی____آج کے دور میں امت اسلامیہ میں اصلاحی کام کرنے والے حضرات کے لئے رسول اللہ ﷺ کا یہ طرزِ عمل مشعلِ راہ کی حیثیت رکھتا ہے کہ اس طرزِ عمل کو اپنا کر محبتوں کو باقی رکھتے ہوئے اور نفرتوں کی دیواروں کو پاٹتے ہوئے معاشرہ میں پنپنے والی بہت سی غلطیوں کا ازالہ کیا جاسکتا ہے۔
(۱۸؍ربیع الاول،۱۴۳۵ مطابق:۱۹؍جنوری ۲۰۱۴)
نوٹ: اس مضمون کی تیاری میں احمد بن صالح الطویان کی تحریر’’کیف تعامل النبی صلی اللہ علیہ وسلم مع الاخطاء‘‘ سے خصوصی استفادہ کیا گیا ہے۔