مصنف – محمد فرقان فلاحی
بسم اللہ الرحمن الرحیم
رمضان المبارک کےلیے بس گنتی کے کچھ دن باقی ہیں، پھر جیسے ہی یہ مبارک مہینہ شروع ہوگا آپ محسوس کریں گے کہ لوگوں میں نیکی کرنے کا مزاج بڑھ گیا ہے، مسجدیں تقریباً بھری ہوئی نظر آئیں گی، قرآن کو پڑھنے کا شوق پیدا ہو جائے گا، تراویح اور رات کی عبادتیں ہونے لگیں گی، سحری وافطار کا خاص اہتمام کیا جائے گا، لوگ صدقہ وخیرات اور دوسروں کی مدد کر کے خوشی محسوس کریں گے۔ اور پھر دیکھتے دیکھتے رمضان کی عید آئے گی اور پھر اکثر لوگ دوبارہ اپنی پرانے روٹین پر لوٹ جائیں گے۔
یوں تو رمضان المبارک کی بہت ساری فضیلتیں ہیں، لیکن اس مہینے کی سب سے بڑی ایک خصوصیت یہ ہے کہ اسی مہینے میں اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید کو نازل فرمایا ہے، اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ ہم نے اس (قرآن) کو لیلۃ القدر میں نازل فرمایا ہے۔ گویا اس مہینے کا قرآن سے ایک خاص تعلق ہے، خود رسول اللہﷺکی عادت تھی کہ اس مہینے میں حضرت جبریل ؑ کے ساتھ قرآن مجید کا دور (Revision) فرمایا کرتے تھے۔ اس لیے ہمیں بھی چاہیے کہ اس مہینے کو صرف کھانے پینے، رات میں جاگنے اور چند مخصوص عبادات کے لیے خاص نہیں کر لینا چاہیے، بلکہ کوشش کرنا چاہیے کہ اس مہینے سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھا سکیں ۔
چونکہ رمضان میں بڑے بڑے شیطانوں کو بند کر دیا جاتا ہے؛ اس لیے اس مہینے میں ہم بہت سارے وہ کام بھی کر سکتے ہیں جن کو ہم چاہ کر بھی دوسرے مہینوں میں نہیں کر پاتے ہیں۔ تو کیوں نہ اس مرتبہ رمضان کے مہینے میں ہم کوئی ایسا کام کریں دیں جس سے ہم اپنی ساری زندگی فائدہ اٹھا سکیں۔
دیکھا جائے تو ہر مسلمان کو قرآن مجید کی اتنی سورتیں یا اتنا حصہ تو یاد ہوتا ہی ہے جن سے اس کی نماز درست ہو جاتی ہے؛ لیکن آئیے اس بار رمضان میں ہم کوشش کریں کہ ہم قرآن مجید کا کچھ اور حصہ باقاعدہ طور پر یاد کر لیں؛ تاکہ پورے سال بھر ہم ان کو اپنی نمازوں میں پڑھتے رہیں اور اللہ تعالیٰ کے پاس زیادہ ثواب حاصل کر سکیں۔ حدیث میں آتا ہے کہ قیامت کے روز قرآن کو یاد کرنے والے شخص سے کہا جائے گا کہ قرآن کو پڑھتا جا، اور جنت کے درجوں پر چڑھتا جا، پس تیری منزل وہیں ہوگی جہاں تو آخری آیت پڑھے گا۔ تو کیوں نہ زیادہ سے زیادہ آیات یاد کر کے جنت کا اونچے سے اونچا درجہ حاصل کیا جائے!
بہت ممکن ہے کہ کوئی اپنی مصروفیت کی وجہ سے یہ خیال کرے کہ اتنا وقت کہاں سے لائیں گے، تو یاد رکھیے کہ قرآن کو یاد کرنے سے بڑھ کر کوئی مصروفیت نہیں، آپ کو کہیں جانا نہیں ہے کہ آپ کی مصروفیت پر اثر پڑے، اپنی دکان پر بیٹھے بیٹھے قرآن کی آیات کو دہراتے رہیے، آفس کو آتے جاتے میں دہرالیجیے، اور اگر وقت نہیں ملتا ہے تو تھوڑا سا وقت نکالیں کہ یہ آپ کی آخرت کے لیے ہے۔
عمر کی زیادتی کی وجہ سے کوئی اگر یہ سمجھ بیٹھا ہے کہ اس عمر میں کہاں سے یاد ہوگا! تو بتاتے چلیں کہ جو دماغ ہم اپنے بچپن سے استعمال کرتے آ رہے ہیں وہ دماغ بڑھاپے میں بھی ہمارے جسم میں ہی ہوتا ہے، مسئلہ صرف یہ ہوتا ہے کہ ہم اپنے بچپن اور جوانی میں اسے اچھی طرح استعمال کرتے ہیں، لیکن بڑھاپے میں اسے استعمال کرنا چھوڑ دیتے ہیں۔ ورنہ اگر استعمال کریں تو پھر وہ ضرور کام کرے گا! دوسری بات یہ بھی یاد رکھیں کہ خود رسول اللہﷺ پر قرآن کا نازل ہونا اس وقت شروع ہوا جب آپ کی عمر 40 سال تھی، اور 23 سال تک نازل ہوتا رہا، اس وقت رسول اللہ ﷺ کی عمر 63 سال تھی۔ نبی ﷺ نے تو اللہ تعالیٰ سے یہ نہیں کہا کہ میری عمر 63 سال ہو چکی ہے اور اب میرے لیے قرآن کو یاد رکھنا مشکل ہے۔ اسی طرح دیکھیں کہ کیا جتنے بھی صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے رسول ﷺپر ایمان لایا تھا کیا وہ سب کے سب نوجوان تھے؟ ہم سب جانتے ہیں کہ ایسا نہیں تھا، بلکہ کسی نے بچپن میں تو کسی نے جوانی اور کسی نے بالکل بڑھاپے کی عمر میں اسلام قبول کیا تھا، اور یہ بات معقول نہیں ہے کہ صحابہ کرام میں سے جس نے بڑھاپے کی عمر میں اسلام قبول کیا ہو اس نے یہ عذر پیش کیا ہو کہ میری عمر کافی ہو چکی ہے اس لیے میرے لیے قرآن کی آیات یاد کرنا ممکن نہیں ہے۔
اسی طرح عام طور پر ہمارے معاشرہ میں یہ بات چل پڑی ہے کہ بچوں کے ذہن پر زیادہ بوجھ نہ ڈالا جائے اور اس بات کو بنیاد بنا کر قرآن کو یاد کرنے سے روک دیا جاتا ہے کہ بڑا ہو کر یاد کر لے گا۔ مسئلہ یہ ہے کہ کیا یقیناً ہمارے بچے اتنے کند ذہن اور کمزور دماغ کے ہوتے ہیں کہ موبائل فون کے ایک ایک فنکشن ، ریاضی کے مشکل سمجھے جانے والے حساب اور انگریزی کے سینکڑوں الفاظ کی اسپیلنگ تو فر فر یاد کر لیں اور سمجھ لیں، اور قرآن کی آیات کو دیکھتے ہی ان کا دماغ ہلکا ہو جائے!
اس لیے سب سے پہلے تو اس بات کو قبول کر لیں کہ قرآن بہت آسان ہے اور اللہ نے اسے آسان بنایا ہے، پھر اس کے بعد جوش جوش میں ایک ہی دن میں کئی گھنٹے بیٹھ کر یاد کرنے کے بجائے ایک پلان بنا کر قرآن کی آیات یاد کرنا شروع کریں ، یقین مانئے کہ اس طرح آپ کے لیے قرآن یاد کرنا نہ صرف ممکن ہو جائے گا؛ بلکہ آپ کو اس میں مزہ اور لطف آئے گا۔ اس لیے آج ہی سے نیت کیجیے کہ ان شاء اللہ اس رمضان کے مہینے میں میں قرآن کی اتنی آیات یا اتنی سورتیں ضرور یاد کروں گا۔
اب سوال ہوتا ہے کہ کیسے پلان بنایا جائے اور کیسے اسے عمل میں لایا جائے؟ بہت ممکن ہے کہ اس کے مختلف جوابات ہوں اور ہر کسی کے لحاظ سے اس کے لیے اپنا کوئی پلان ہو۔ یہاں ہم نے صرف تیسویں پارے کو یاد کرنے کے تعلق سے کچھ باتیں پیش کی ہیں اور پھر اس کا ایک پلان بنایا ہے، جس کی مدد سے آپ بہت آسانی سے اپنے تمام کاموں کے ساتھ ساتھ رمضان المبارک میں پورا تیسواں پارہ یاد کر سکتے ہیں۔
اگر آپ غور کریں تو پتہ چلے گا کہ تیسویں پارے میں 37 سورتیں ہیں ، اور پندرہ سطر (line) والے قرآن کے لحاظ سے اس پارے میں 24 صفحات ہیں۔ اگر آپ مجموعی سطریں دیکھیں توتقریباً 360 سطریں ہوتی ہیں، لیکن چونکہ ہر سورت کے شروع میں سورت کا نام وغیرہ ہوتاہے اور پھر بسم اللہ کی ایک لائن ہوتی ہے، ہر سورت کے شروع سے ان دونوں لائنوں کو نکال دیا جائے تو ہمارے پاس صرف 286 سطریں بچتی ہیں۔
پھر اگر آپ کو قرآن مجید کی آخری دس سورتیں پہلے سے یاد ہوں تو اندازاً 50 سطریں اور کم ہو جاتی ہیں اور اب یاد کرنے کے لیے صرف 236 سطریں ہی رہ جاتی ہیں۔ اگر ہم رمضان کے 30 دن پکڑیں تو گویا آپ کو ایک دن میں صرف 8 یا 9 لائنیں ہی یاد کرنا ہے۔
اس کی ترتیب اس طرح بنائی جا سکتی ہے:
رمضان | کیا یاد کرنا ہے | رمضان | کیا یاد کرنا ہے |
1 | سورہ نبا (آیت: 1 تا 20) | 11 | سورہ مطففین (آیت: 16 تا 30) |
2 | سورہ نبا (آیت: 21 تا 40) | 12 | سورہ مطففین (آیت: 31 تا 36)سورہ انشقاق (آیت: 1 تا 6) |
3 | سورہ نازعات (آیت: 1 تا 19) | 13 | سورہ انشقاق (آیت: 7 تا 25) |
4 | سورہ نازعات (آیت: 20 تا 39) | 14 | سورہ بروج (آیت: 1 تا 11) |
5 | سورہ نازعات (آیت: 40 تا 46)سورہ عبس (آیت: 1 تا 10) | 15 | سورہ بروج (آیت: 12 تا 22)سورہ طارق (آیت: 1 تا 7) |
6 | سورہ عبس (آیت: 11 تا 32) | 16 | سورہ طارق (آیت: 8 تا 17)سورہ اعلیٰ (آیت: 1 تا 9) |
7 | سورہ عبس (آیت: 33 تا 42)سورہ تکویر (آیت: 1 تا 14) | 17 | سورہ اعلیٰ (آیت: 10 تا 19)سورہ غاشیہ (آیت: 1 تا 11) |
8 | سورہ تکویر (آیت: 15 تا 29)سورہ انفطار (آیت: 1 تا 5) | 18 | سورہ غاشیہ (آیت: 12 تا 26)سورہ فجر (آیت: 1 تا 5) |
9 | سورہ انفطار (آیت: 6 تا 19) | 19 | سورہ فجر (آیت: 6 تا 20) |
10 | سورہ مطففین (آیت: 1 تا 15) | 20 | سورہ فجر (آیت: 21 تا 30)سورہ بلد (آیت: 1 تا 6) |
رمضان | کیا یاد کرنا ہے |
21 | سورہ بلد (آیت: 7 تا 20)سورہ شمس (آیت: 1 تا 10) |
22 | سورہ شمس (آیت: 11 تا 15)سورہ لیل (آیت: 1 تا 13) |
23 | سورہ لیل (آیت: 14 تا 21)سورہ ضحیٰ |
24 | سورہ الم نشرح، سورہ تین |
25 | سورہ علق و سورہ قدر |
26 | سورہ بینہ |
27 | زلزال وعادیات |
28 | قارعہ، تکاثر، عصر |
29 | ہمزہ تا کوثر |
30 | کافرون تا ناس |
بہت ممکن ہے کہ بعض سورتوں کی بعض آیات کچھ مشکل محسوس ہوں، لیکن کوئی بات نہیں؛ کیونکہ بعض سورتوں کی بعض آیات آپ نے نمازوں میں بہت ساری مرتبہ سنی ہوں گی جن کو یاد کرنا آپ کے لیے مشکل نہیں رہے گا۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے آپ دہلی سے حیدرآباد کے لیے کار سے سفر کرنے نکلیں، آپ کو پہلے سے پتہ ہے کہ اندازاً کتنے دن لگیں گے، کتنا ڈیزل یا پٹرول لگے گا اور کہاں کہاں آپ نے رکنا ہے اور کتنے گھنٹوں میں آپ کا سفر پورا ہوگا، بہت ممکن ہے کہ راستہ کہیں خراب ہو تو آپ کی کار کی اسپیڈ کم ہو جائے؛ لیکن پورا راستہ تو خراب نہیں رہے گا! جہاں راستہ اچھا ہوگا وہاں آپ کچھ زیادہ اسپیڈ سے چلا کر اپنے متعینہ وقت پر منزل تک پہنچ سکتے ہیں۔ بالکل اسی طرح جس سورت میں آیات کا یاد کرنا مشکل محسوس ہو، ان کو تھوڑا زیادہ وقت دیں اور جہاں آسان ہوں وہاں زیادہ آیات یاد کر لیں۔
ایک سوال ہو سکتا ہے کہ اس ترتیب کے مطابق کس وقت یاد کرنا زیادہ بہتر ہے؟ اس کے لیے ہمارا مشورہ یہ ہے کہ یوں تو آپ سحری کے لیے جاگنے والے ہی ہیں، 10 منٹ پہلے جاگ جائیے اور اس وقت یاد کرلیجیے، پھر سحری کے بعد نماز پڑھ کر فوراً سونے کے بجائے فجر کی نماز سے پہلے اور بعد میں 10 سے 15 منٹ پھر یاد کیجیے۔ ظہر کی نماز بھی آپ کو پڑھنا ہی ہے، نماز کے بعد دس سے پندرہ منٹ پھر یاد کیجیے، اسی طرح عصر کی نماز کے بعد دس سے پندرہ منٹ پھر یاد کیجیے۔ مغرب کے بعد چونکہ عشاء اور تراویح کی فکر ہوتی ہے اس لیے مغرب بعد اگر سہولت ہو تو پھر یاد کر لیجیے؛ یا پھر سیدھا تراویح سے فارغ ہو کر دن بھر میں جتنی آیتیں یاد کی ہیں ان کو اچھی طرح دہرا لیجیے اور اپنے اوپر لازم کر لیجیے کہ آج کے سبق کو دہرائے بغیر سونا نہیں ہے۔
دوسرے دن پھر یہی معمول رہے گا، البتہ دوسرے دن کا سبق شروع کرنے سے پہلے پھر ایک بار اپنے گزشتہ سبق کو دہرا لے؛ تاکہ وہ پکا ہو جائے۔
ایک اور بڑی مصیبت یہ ہے کہ ایک طرف تو یہ ہمارا ایمان ہے کہ قرآن اللہ کی کتاب ہے، اور دوسری طرف ہمارا ظلم یہ ہے کہ ہم میں سے اکثرلوگ اسے ٹھیک سے پڑھنا ہی نہیں جانتے ہیں! انگریزوں کی طرح انگریزی بولنا سیکھنے کے لیے اسپیشل کورسیز اور اسپیشل کلاسیز کریں گے؛ لیکن قرآن کو ڈھنگ سے پڑھنے کی بات ہو تو پھر ہماری جیبوں پر فاقہ کی نوبت آ جاتی ہے۔ یہاں ہم صرف ایک بات کہنا چاہیں گے کہ ٹھیک ہے، قرآن کو جیسا پڑھنا چاہیے ویسا پڑھنا نہیں آتا ہو تو کوئی بات نہیں، لیکن جیسا پڑھنا چاہیے ویسا سن تو سکتے ہیں! سوچیے کہ اللہ تعالیٰ نے ٹیکنالوجی کے ذریعہ ہمارے لیے کتنا آسان کر دیا ہے۔ ادھر آپ نے اپنا فون وغیرہ میں کسی قاری کا نام سرچ کیا اور اس کی بہترین تلاوت آپ کے کانوں میں اترنے لگی۔ بس آپ کو یہ کرنا ہے کہ جیسا وہ قاری قرآن کو پڑھ رہا ہے بالکل اسی طرح پڑھنے کی کوشش کرنا ہے۔ یہ بات بالکل واضح ہے کہ کوئی انسان کچھ دن کی مشق سے شیخ عبدالباسط ، شیخ صدیق منشاوی یا شیخ سدیس وغیرہ تو نہیں بن سکتا ہے؛ لیکن یہ تو ممکن ہے کہ وہ کسی اچھے قاری کی تلاوت کو سن کر اپنے تلفظ کو درست کر لے۔ بہتر تو یہ ہے کہ کسی اچھے قاری کے سامنے بیٹھ کر اپنے تلفظ کو درست کروایا جائے؛ لیکن اگر یہ نہیں کیا جا سکتا تو کم از کم قرآن کی ریکارڈنگ سن کر ہی درست کرنے کی کوشش کر لی جائے؛ کہ نہ ہونے سے بہتر کچھ تو ہو جانا ہے۔
یاد رکھیے کہ جب کوئی سیزن یا تہوار آتا ہے تو سمجھدار تاجر یہ دیکھتا ہے کہ اس کو کیسے فائدہ ہو سکتا ہے، وہ یہ نہیں سوچتا ہے کہ جتنا سب کما رہے ہیں میں بھی اتنا ہی کما لیتا ہوں، یا یہ نہیں سوچتا کہ گزشتہ سال جتنا کمایا تھا اتنا ہی کما لوں تو بس ہے؛ بلکہ اس کی خواہش اور کوشش ہوتی ہے کہ اس بار پہلے سے زیادہ اور دوسروں سے بڑھ کر منافع کمانا ہے۔ جب ختم ہونے والی دنیا کے فائدہ کے لیے انسان اتنی محنت اور کوشش کرسکتا ہے تو ہمیشہ باقی رہنے والی آخرت اور جنت کے فائدے کے لیے ہمیں کتنی محنت اور کوشش کرنا چاہیے! تو پھر ابھی سے عمل کی نیت کیجیے اور رمضان کے بعد اپنا جائزہ لیں کہ کتنی نیکیاں ہمارے آخرت کے اکاؤنٹ میں ہم نے جمع کیں اور کتنی نیکیاں ہم سے چھوٹ گئیں۔