مصنف – محمد فرقان فلاحی

بسم اللہ الرحمن الرحیم

انسان کی فطرت میں یہ بات شامل ہے کہ وہ محبتیں بانٹنا چاہتا ہے اور اس کے لیے مختلف طریقے اختیار کرتا ہے۔ ان میں سے ایک معروف اور مروج طریقہ کسی کی میزبانی کرنا اور کھانا کھلانا بھی ہے جس کا صدیوں سے رواج چلا آ رہا ہے۔ کبھی کسی خاص پس منظر میں ضیافت ومیزبانی کی جاتی ہے تو کبھی یوں ہی کسی مہمان کی آمد پر باقاعدہ کھانے کا نظم کیا جاتا ہے۔ قرآن مجید میں حضرت ابراہیم ؑ کے پاس فرشتوں کی آمد کا اور حضرت ابراہیمؑ کا ان کی خدمت میں کھانا پیش کرنے کا ذکر خاص طور پر کیا گیا ہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ اس دور میں اجنبی افراد کے گھر آنے پر کھانے کا نظم کرنا معاشرت کا ایک حصہ سمجھا جاتا تھا۔

رفتہ رفتہ کھانے اور کھلانے کی یہ دعوتیں اور پھر ان کے مقاصد بدلتے چلے گئے، کسی بچہ کی بسم اللہ خوانی یا پھر ختنہ کے موقع سے لے کر کسی کے انتقال ہونے پر کیا جانے والا کھانا، ہر ایک کے اپنے کچھ بنے بنائے اصول وضوابط ہوتے ہیں، یہاں تک کہ علاقوں کے بدلنے سے پکوان بھی بدل جاتے ہیں اور بڑے اہتمام سے ان کا انتظام کیا جاتا ہے۔

مختلف قسموں کی دعوتوں میں شرکت کا موقع ملا ، ایک دعوت میں جانے کا اتفاق ہوا اور دوسری ایک دعوت میں جانے کا امکان ہے، اس پس منظر میں چند باتیں پیش خدمت ہیں۔

  1. پہلی بات تو یہ کہ عام طور پر اس قسم کی دعوتیں فنکشن ہال وغیرہ کے بجائے گھروں پر ہی منعقد کی جاتی ہیں۔ جگہ کم ہوتی ہے اور افراد زیادہ ہوتے ہیں، ایسی صورت میں میزبان کے لیے سب سے بڑی راحت اس میں ہوتی ہے کہ مہمان کھانے سے جلد از جلد فارغ ہو کر چلے جائیں یا انتظار کے لیے متعین کی گئی جگہ میں بیٹھیں، تاکہ دیگر افراد کھانا کھا سکیں۔ یہ بڑی ناسمجھی کی بات ہوتی ہے کہ مہمان کھانے کے دوران فضول گفتگو میں لگے رہیں اور پھر دوسرے افراد کو کھانے میں دیر ہو۔
  2. جن لوگوں کی اپنی دکانیں یا کاروبار ہوتا ہے ان کی عادت یہ ہوتی ہے کہ وہ اپنی دکانوں سے فارغ ہو کر رات میں کافی تاخیر سے دعوت میں پہنچتے ہیں۔ اس میں بھی میزبان کے لیے الجھن اور تکلیف ہو جاتی ہے کہ اسے بھی آرام کرنا ہوتا ہے، تمام مہمانوں کے جانے کے بعد سامان، برتن، چادریں وغیرہ سمیٹنا ہوتا ہے جس میں اسے اور وقت لگتا ہے۔ اس لیے مناسب یہ ہے کہ دکان وغیرہ سے یا تو جلدی فارغ ہو جائیں، یا پہلے آ کر کھانا کھا لیں یا میزبان کو پہلے اطلاع کر دیں کہ ہمیں تاخیر ہوگی، یا پھر شرکت سے معذرت کر لیں۔
  3. بعض لوگوں کو یہ بیماری ہوتی ہے کہ وہ کسی بھی دعوت میں اپنے کسی مخصوص دوست، رشتہ دار کے ساتھ دستر پر بیٹھنے کے خواہش مند ہوتے ہیں۔ یہاں تک کہ اگر وہ وقت پر دعوت گاہ پر پہنچ بھی جائیں تو اپنے اس ساتھی کے انتظار میں بیٹھے رہتے ہیں کہ ان کے آنے کے بعد کھانا کھائیں گے۔ یہ خلاف تہذیب ہے اور اس میں میزبان کے لیے کوفت کا سامان ہے۔ میزبان کی خواہش اور کوشش یہ ہوتی ہے کہ مہمان جلد از جلد کھانے سے فارغ ہو جائیں لیکن یہ صاحب بلا کسی معقول وجہ کے خود اپنا بھی وقت ضائع کر رہے ہوتے ہیں اور میزبان کو بھی تکلیف میں ڈال دیتے ہیں۔ ہاں اگر خود میزبان کہے کہ تھوڑا رک جائیے اور فلاں صاحب کے ساتھ بیٹھ جائیے، تو کوئی حرج نہیں۔
  4. ایک خرابی جو دعوتوں میں دسترخوان پر دیکھنے کو ملتی ہے وہ یہ ہے کہ بعض احباب دستر پر نہایت فراخ دلی کے ساتھ کھانا برتنے لگتے ہیں،اپنی پلیٹ کے علاوہ اڑوس پڑوس کے لوگوں کی پلیٹوں میں بھی زبردستی سالن وغیرہ انڈیلتے جاتے ہیں۔ اس میں دو خرابیاں ہیں، ایک تو یہ کہ مہمان کو میزبان نے صرف کھانا کھانے کی دعوت دی ہے نہ کہ دوسروں کو کھانا کھلانے کی، اس لیے صرف اپنی حد تک بقدر ضرورت کھانا لینا چاہیے۔ دوسری خرابی یہ ہے کہ میزبان کو انداز ہوتا ہے کہ کتنے مہمان باقی ہیں اور کھانا کتنا باقی ہے، وہ اسی اعتبار سے کھانا دستر پر سجاتا ہے۔ لیکن اس طرح دوسروں کی پلیٹ میں کھانا ڈالنے میں بسا اوقات لوگ کھانا چھوڑ دیتے ہیں اور بالآخر کھانا ضائع ہوتا ہے اور میزبان کے لیے تکلیف کا سبب بن سکتا ہے۔
  5. دعوت وغیرہ کے کھانوں میں سب سے برا حال دستر کا ہوتا ہے، پہلی مرتبہ میں صاف ستھرا بچھایا گیا دستر دو سے تین نشستوں کے بعد مطبخ کی صافی کا سا منظر پیش کرتا ہے جس پر سالن کے دھبے، ہڈیوں کے ٹکڑوں کے نشانات رہ جاتے ہیں۔ اس کا آسان اور مہذب حل یہ ہے کہ پہلے مہمانوں کو بٹھا دیا جائے، پھر ان کی موجودگی میں دستر بچھایا جائے، ہر ایک کے سامنے اس کی پلیٹ وغیرہ رکھی جائے، پھر دو چار لوگوں کے درمیان ایک ایک اضافی پلیٹ رکھی جائے اور پیار بھرے انداز میں بتا دیا جائے کہ ہڈیاں اور زوائد وغیرہ اس پلیٹ میں ڈال دیں۔ اس طرح ایک تو دستر بھی خراب نہیں ہوگا اور نہ گھر کی خواتین کو ایسے دستر دھونے میں کوفت ہوگی۔
  6.   ایک خراب عادت جو دعوتوں میں کھانے کے دوران دیکھنے میں آتی ہے کہ بعض افراد ہر تھوڑی دیر میں ڈھکے چھپے الفاظ میں یا مخصوص اصطلاحات کا استعمال کرتے ہوئے گوشت کے لیے نعرہ لگاتے نظر آتے ہیں، یہ صورت حال میزبان کے لیے بڑی پریشان کن ہوتی ہے کہ اگر وہ چند افراد ہی پر سالن یا کھانے کا پورا گوشت صرف کر دے تو بقیہ مہمانوں کی ضیافت کیسے کرے گا؟ اس لیے جو مل جائے اس پر اکتفاء کرتے ہوئے اللہ کا شکر اور میزبان کا شکریہ ادا کرنا چاہیے۔
  7. بعض دعوتیں خوشی سے زیادہ پریشانی اور ذہنی دباؤ کا سبب ہوتی ہیں، اور اس کا سبب یہ بات ہوتی ہے کہ دعوت میں تحفہ کیا دینا ہے۔ یہ ایک عجیب رسم ہے کہ دعوت میں جانا ہے تو لازمی طور پر کچھ نہ کچھ تحفہ دینا ہوگا ورنہ لوگ کیا بولیں گے۔ بعض مرتبہ لوگ لفافے میں کچھ نقد رقم رکھ کر دے دیتے ہیں لیکن اس میں بھی ایک پشیمانی ہوتی ہے کہ لوگ کیا کہیں گے کہ انہوں نے صرف سو روپیے دے۔ بعض مرتبہ یہ بھی دیکھا گیا کہ لوگوں نے صرف اسی ڈر سے دعوت میں شرکت نہیں کی کہ تحفہ دینے کی گنجائش نہ تھی تو وہیں یہ بھی دیکھا گیا کہ تحفہ دینے کے لیے لوگوں نے قرض لیا۔ یعنی ہمارے معاشرے میں ہم نے دعوت کو جو محبتوں کے مرجھاتے ہوئے درخت کو پانی دینے کا ایک سبب تھا اسے ان غیر ضروری رسم ورواج کی رسیوں سے جکڑ دیا ہے۔اب اگر صرف اس وجہ سے کوئی دعوت میں شرکت نہ کر سکے تو ایک بدگمانی کا کیڑا انسانی دماغ میں جنم لیتا ہے کہ ہم نے تو دعوت دی تھی لیکن فلاں صاحب نہیں آئے، اور اگر کوئی چلا جائے لیکن تحفہ نہ دے تو بھی پریشانی، اور اگر کسی معتدل قسم کا تحفہ دے بھی دے  تو بھی پریشانی کہ بہت سستے میں نمٹا دیا ہے۔ ایسی صورت میں بہتر یہ ہے کہ اگر کوئی تحفہ دینا ہی ہو تو ایک بار میزبان سے پوچھ لیا جائے کہ ہماری گنجائش اتنی ہے اور ہم اتنی قیمت کی کوئی چیز ہدیہ دینا چاہ رہے ہیں، آپ بتا دیں کہ کیا دینا مناسب ہے۔ اگر وہ بخوشی بتا دے تو وہی چیز دے دی جائے؛ یا پھر اتنی رقم ہدیہ کر دی جائے تاکہ ان کے اخراجات میں مدد ہو جائے۔
  8. دعوتوں میں(چاہے گھر پر ہو یا فنکشن ہال وغیرہ میں) ایک بڑا مسئلہ بے پردگی کا ہوتا ہے، بالغ لڑکے بلا تکلف خواتین کے گوشے میں سیر وتفریح کرنے چلے جاتے ہیں، کچھ شادی شدہ احباب بھی کھانا کھانے کے بعد چہل قدمی کرنے کے لیے خواتین کے حصے میں ٹہلتے نظر آتے ہیں۔ یہ بالکل خلاف مروت، خلاف ادب اور خلاف شریعت بات ہے۔ اس سلسلہ میں خود میزبان اس بات کا اہتمام کرے کہ خواتین کے حصے میں پردہ کا مکمل نظام ہو، نیز خواتین ہی میں چند کو متعین کر دیا جائے کہ وہ کسی بھی بالغ لڑکے کو یا کسی مرد کو خواتین کے حصے میں آنے نہ دیں اور اگر کوئی آ جائے تو مہذب انداز میں اسے واپسی کا راستہ دکھا دیا جائے۔
  9. ایک نیا سلسلہ دعوتوں کے تعلق سے یہ چل پڑا ہے کہ دعوت کا کھانا کیٹرنگ سے بن کر آ جاتا ہے، وہیں سے خدمتگاربھی متعین ہو جاتے ہیں جو کھانا تقسیم کرتے ہیں اور علی الحساب رقم طے ہو جاتی ہے۔ اس طرح کرنے سے دعوت تو بہرحال ہو جاتی ہے لیکن ایسے کھانے میں اپنائیت کا مسالہ، محبت کا تڑکا اور تعلق کی مٹھاس  نہیں ہوتی ہے۔ گھر کی خواتین اگر برضاورغبت تیار ہوں اور دعوت دینا ضروری ہو تو ان کے مشورہ سے مختصر افراد کی دعوت کی جائے،تاکہ گھر کے افراد کے ہاتھ اس کھانے میں لگیں ، مختلف اقسام کی ڈش کے بجائے ایک ہی کھاناہو ؛ تاکہ دل کا دل سے رشتہ مضبوط ہو اور دعوت کا مقصد یعنی تعلق اور رشتہ داری کو مضبوط کرنا پورا ہو ۔
  10. بعض افراد میں اپنے رشتہ داروں کی دعوت کرنے کا جذبہ کچھ زیادہ ہی ہوتا ہے، یہ بظاہر اچھی بات ہے اور ہونا بھی چاہیے لیکن وہ اپنے اس جذبہ سے کچھ اتنا زیادہ متاثر ہو جاتے ہیں کہ قرض لے لے کر دعوت کا اہتمام کرتے ہیں۔ یہ بالکل بھی اچھی بات نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ نے جو سہولت دی ہے اسی دائرہ میں رہتے ہوئے نیک نیتی کے ساتھ دعوت دے دینا چاہیے، نہ یہ کہ قرض لے کر بڑی شاندار دعوت کر دی جائے اور پھر بعد میں قرض خواہوں کے تقاضوں سے بچنے کے لیے فون کو بند کر دیا جائے۔
  11. دعوتوں میں ایک عمومی کوتاہی جو اچھے اچھوں سے سرزد ہو جاتی ہے وہ یہ ہے کہ جہاں میزبان نے صرف آپ کو دعوت دی وہاں آپ اپنے فرزند ارجمند یا دختر نیک اختر کو بھی لے کر پہنچ گئے،  کوئی صاحب اپنے سالے صاحب کو لے آئے تو کوئی بزرگ اپنے خادم سمیت نازل ہو گئے۔ بھلا سوچیے کہ میزبان نے جتنے افراد کے لیے کھانا تیار کیا ہوگا اس میں ان اضافی طفیلیوں کا کھانا کہاں سے نکل پائے گا؟ یا تو آپ پہلے سے اجازت لے لیں کہ میرے ساتھ ایک صاحب اور رہیں گے، یا پھر آپ اپنے ان صاحب کے کھانے کا نظم کر دیں، یا ان سے کہہ دیں کہ آپ اپنے کھانے کا نظم کر لیں تاکہ کسی اور کو سبکی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔
  12.   بعض میزبانوں کی کوتاہی یہ ہوتی ہے کہ وہ دعوت تو دیتے ہیں اور پھر ہوتا یہ ہے کہ دعوت کے دوران کہیں کچھ سامان لینے چلے گئے،  کسی مخصوص مہمان کے ساتھ چائے کی چسکی یا سگریٹ کے کش کے لیے روانہ ہو گئے اور ادھر مہمانوں کا کوئی پرسان حال نہیں۔ پہلے ہی سے سب امور اور ذمہ داریاں طے کر لی جائیں کہ باہر سے سامان کون لائے گا، ضرورت پڑنے پر باہر کون جائے گا، مہمانوں کے استقبال کے لیے کون رہے گا؛ تاکہ کسی قسم کی بے ترتیبی نہ ہو۔ ایسے ہی جب کبھی اپنے گھر میں دعوت کا اہتمام کیا جائے تو ہوتا یہ ہے کہ دعوت کے کامیابی کے ساتھ مکمل ہونے کی خوشی میں میزبان صاحب اپنے دوست احباب کےساتھ گپے مارنے ، چائے پینے کے لیے نکل جاتے ہیں، بسا اوقات یہ ظلم ہوتا ہے کہ گھر کی خواتین کو آرڈر دیا جاتا ہے کہ ذرا دس پندرہ کپ چائے بنا کر باہر بھیجی جائیں۔ بجائے اس کے یہ کیا جائے کہ تمام مہمانوں کو رخصت کر کے احباب سے کل ملاقات کا وقت طے کر لیا جائے اور گھر میں اہل خانہ کے ساتھ مل کر کام کیا جائے۔

یہ چند باتیں ہیں جو ہمارے معاشرہ میں دعوتوں کے تعلق سے گاہے بگاہے نظر آتی رہی ہیں۔ اصل پیغام یہ ہے کہ ہمیں اپنی خوشیوں کے موقع پر بھی اسلامی تعلیمات کو ذہن میں رکھنا چاہیے ۔ کھانا زندگی کا مقصد ہرگز نہیں ہے لیکن مقصد زندگی میں معاون ہے؛ اس لیے اس کے آداب سیکھے جائیں، میزبانی ایک اہم کام ہے اس کے طریقے جانے جائیں، کھانے پینے کی مجلسوں، دعوتوں کوآسان اور  بامقصد بنایا جائےتاکہ وہاں آنے والا ہر مہمان اپنی خوشیوں کے چمن سے گلدستہ سجا کر لائے اور میزبان کے گھر کو گلستان کر دے، کہ خوشی پانے سے زیادہ بڑی خوشی کسی کو خوشی دینے میں ہوتی ہے۔