مصنف – محمد فرقان فلاحی

بسم اللہ الرحمن الرحیم

زندگی میں سبق سیکھنے کے لیے بڑے بڑے واقعات یا حادثوں کی ضرورت نہیں ہوا کرتی ہے، بسا اوقات انسان چھوٹی سے چھوٹی چیز سے بھی بڑے سے بڑا سبق سیکھ جاتا ہے، شرط یہ ہے کہ دیکھنے اور سمجھنے کا زاویہ درست کر لیا جائے۔

آج کل ٹو وہیلر بائیک تقریباً ہر علاقے میں سینکڑوں کی تعداد میں دندناتی پھرتی ہیں، بائیک بھی اپنے چلانے والےکے مزاج کا پتہ دیتی ہے، ادھیڑ عمر یا شادی شدہ شخص کی بائیک ضروری نہیں کہ اس میں آئینے بھی سلامت ہوں اور انڈیکیٹرس کام کر رہے ہوں، ان کی سوچ یہ ہوتی ہے کہ بائیک تو سیلف اسٹارٹ والی لینا ہے لیکن کچھ عرصہ بعد سوچ میں تھوڑا موڑاس طرح آتا ہے کہ جب لات مار کر (مہذب زبان میں کک مار کر)بائیک اسٹارٹ ہو سکتی ہے تو پھر بیٹری کیوں خریدی جائے یا ریچارج کروائی جائے۔ بوڑھے حضرات کو ایکٹیوا یا دیگر موپیڈ گاڑیوں کی ایسی لت لگ گئی ہے کہ انہوں نے گیئر والی بائیکس سے ہر قسم کا ناطہ توڑ لیا ہے، سوائے اس کے کہ کسی کے پیچھے بیٹھ کر جانا ہو تو مجبوری میں قبول کر لیتے ہیں۔ رہی بات نوجوانوں کی، تو پھر بائیک میں جس چیز کی ضرورت ہی نہ ہو وہ بیچارے بائیک میں اس کا بھی انتظام کر لیتے ہیں۔ آپ نے بھی دیکھا ہوگا کہ بعض افراد نمبر پلیٹ کے اطراف میں چھوٹی چھوٹی لائٹوں کی سرحد لگا دیتے ہیں، بعض کو تو دیکھا کہ ان کے انجن میں پتہ نہیں کہاں لائٹ فٹ کی جاتی ہے کہ زمین کا اتنا حصہ روشن ترین نظر آتا ہے۔ ہارن بھی کچھ اس قسم کا لگوا لیتے ہیں کہ تقریباً پاؤ کلو میٹر تک قسطوں پر بجتا ہی رہے،  نمبر پلیٹ پر کوئی بھی ایسا جملہ ضرور ملے گا جس پر وہ ابھی عمل نہیں کرتے ہیں۔ پیچھے کی گاڑی کو دیکھنے کے لیے لگائے گئے آئینوں کے کانوں کو مروڑ کر بالکل اپنے سینے کے سامنے اس طرح کر لیتے ہیں گویا بائیک چلاتے ہوئے کتنے بال ہوا سے اڑ رہے ہیں انہیں شمار کرنا چاہتے ہوں ۔

بہر حال، ہم بھی ایک عدد بائیک استعمال کرتے ہیں جو اوپر بیان کی گئی قسموں میں اتفاق سے پہلے نمبر پر ہے۔ یہ اللہ کا کرم ہے کہ ہماری بائیک میں بائیک ہونے کی تمام صفات اگرچہ مکمل طور پر موجود نہ ہوں، لیکن اس کی سب سے پیاری اور انوکھی صفت جس سے مجھے بہت پیار ہے وہ یہ ہے کہ وہ الحمدللہ چلتی ہے بلکہ دوڑانے پر دوڑتی بھی ہے اور روکنے پر رک بھی جاتی ہے۔ رات میں جہاں کھڑی کر دو بیچاری بغیر کسی اعتراض کے کھڑی ہو جاتی ہے اور کبھی یہ مطالبہ نہیں کرتی ہے کہ مجھے کسی خوبصورت قسم کی ایکٹیوا کے بازو کھڑے کیا جائے نہ ہی یہ شکایت کرتی ہے کہ وہ سامنے والی پلسر مجھے بہت دیر سے گھور رہی ہے مجھے کہیں اور کھڑی کر دیں۔

ہارن بھی ہماری  بائیک کا بہت اچھا ہے، تقریباً تین سے چار دفعہ بجانے پر ایک بار چیخ پڑتا ہے کہ ہاں بھائی!  بج رہا ہوں، اتنی بھی کیا جلدی ہے۔ بعض دفعہ تو یہ بھی تجربہ کرنا پڑا کہ ہارن نہ بجنے پر ہم نے منھ ہی سے پیپ پیپ کی آواز کر کے لوگوں کی توجہ بھٹکا دی۔

پہلےتو یوں ہوا کرتا تھا کہ ادھر چابی لگائی اور ادھر سیلف کے بٹن کو صرف اشارہ کیا اور ہماری بائیک کسی گھوڑے کی طرح ہنہنا اٹھتی، جیسے جیسے عمر بڑھتی گئی بیچاری کے وائر سفید ہونے لگے اور پھر نہ چاہتے ہوئے بھی سیلف کو ہم نے شیلف میں رکھ کر اپنی پرانی لات مارنے والی عادت کی طرف رجوع کیا۔ اگرچہ ہمیں بھی کافی برا لگتا کہ اپنی ہی بائیک ہے، پھر بھی لات مارنا پڑ رہا ہے۔ لیکن کریں تو کیا کریں، اس پر رحم کھائیں تو پیدل چلنا پڑ جائے، اور یہ ہمیں زیادہ بڑا ظلم محسوس ہوتا ہے اس لیے ہم خود پر رحم کھاتے ہیں اور اس کو لات مارتے ہیں۔

بریک کی تو بات ہی نہ کریں جناب! بریک کے بارے میں ہماری بائیک کا مزاج دوسری منھ زور گاڑیوں سے قدرے مختلف ہے۔ جب ہم بریک پر اپنے پیروں کا وزن بڑھاتے ہیں تو پہلے وہ پوچھتی ہے کہ میرے سوارمحترم! کیا آپ میری رفتار کو کم کرنا چاہ رہے ہیں؟  اور جب ہم اسے جواب دیتے ہیں تب وہ تھوڑی دھیمی ہوتے ہوتے اس وقت رکتی ہے جب ہم اپنے دونوں پاؤں زمین سے قوت سے چمٹا کر گھسٹنا شروع کر دیتے ہیں۔ یہ بات اور ہے کہ اس طرح کرنے سے ہمیں چلنے میں دشواری ہوتی ہے کہ چپل کا نقشہ کئی جگہوں سے بدل چکا ہے۔

پچھلے کچھ دنوں سے ہم اپنی بائیک کی ایک اور کمزوری محسوس کر رہے ہیں جو ہم پر اب تک واضح نہیں ہوئی تھی۔ وہ یہ کہ ایک دفعہ رات کے وقت ہم اپنی بائیک پر سوا ر کہیں جا رہے تھے، اچانک ہم نے محسوس کیا کہ راستے کی خرابی کی وجہ سے ہماری بائیک کو جب جب دھچکے لگ رہے ہیں تب تب ہماری بائیک کی ہیڈ لائٹ کا دیا کبھی جل رہا ہے اور کبھی بجھ رہا ہے۔ہمیں لگا کہ کہیں ہماری بائیک کو موتیا بند تو نہیں ہو گیا ہے۔  ہماری حساس طبیعت سے اس کی یہ بدحالی نہ دیکھی جا سکی تو ہم اسےاس کے شفاخانہ المعروف بہ گیاریج لے گئے ۔ وہاں موجود حکیم صاحب نے ہماری بائیک کی حالت پر نظر ڈال کر دریافت کیا کہ کیا آپ اسی پر سوار ہو کر آئے ہیں؟ ہمیں ان کے سوال سے توہین کی خوشبو ضرور آئی لیکن ہم نے فخریہ انداز میں کہا کہ ہاں، یہی ہماری سات سالہ اکلوتی بائیک ہے اور ہم اسی پر سوار ہو کر یہاں پہنچے ہیں۔ انہوں نے مرض کے تعلق سے پوچھا تو ہم نے ہیڈ لائٹ کا قصہ سنایا، موصوف نے دستانے چڑھائے اور ہیڈ لائٹ کی تالو پر ٹارچ مارتے ہوئے کہنے لگے کہ دراصل اس کے قرنیہ والے وائر کا کنکشن ڈھیلا ہو گیا ہے جس کی وجہ سے اس کی شمع جھلملا رہی ہے۔  پھر انہوں نے خالص علمی انداز میں ایک لطیف نکتہ ارشاد فرماتے ہوئے کہا کہ دیکھو! جب یہ کھڑی رہے گی تب اس کی ہیڈ لائٹ کی روشنی بالکل سورج کی طرح پورے راستے کو روشن کر دے گی؛ لیکن جب چلتی رہے گی تو اس بیماری کے اثرات شدید طور پر نظر آئیں گے اور راستے پر کبھی روشنی رہے گی اور کبھی آپ کو اپنے اندازے کے مطابق چلا لینا پڑے گا۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جب کبھی راستے پر کوئی دھچکہ لگے گا تو اس کی ہیڈ لائٹ کے تار ہل جائیں گے اور پھر وہ صحیح طور پر کام نہیں کر سکے گی۔ یعنی جب جب تار جڑے رہیں گے تب تب روشنی رہے گی، اور جیسے ہی تار ہلیں گے روشنی غائب ہو جائے گی۔ ہمیں اپنی بائیک سے کوئی شکایت ہی نہ رہی ، ہم تو راستوں میں موجود گڑھوں کی سوچ میں ڈوبے حکیم صاحب کا شکریہ ادا کر کے وہاں سے لوٹ آئے ؛لیکن رات میں جب بستر پر لیٹے تو ایک بہت عجیب بات نے ہمارے دماغ کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا کہ جب جب تار جڑے رہیں گے روشنی آئے گی اور جیسے ہی  تار ہلیں گے روشنی غائب ہو جائے گی۔

اس وقت ہمیں احساس ہوا کہ ہماری زندگی بھی اسی طرح ہے، جب جب ہماری زندگی کے تار اللہ سے ، اس کی کتاب سے، اس کے رسول سے جڑے رہیں گے تب تب ہماری زندگی میں خوشیوں کی، کامیابیوں کی، سکون کی روشنیاں جگمگاتی رہیں گی اور زندگی گزارنے کا راستہ بالکل صاف دکھائی دیتا رہے گا ، اور جہاں ہماری زندگی کا تار ان سب سے ہلا ، وہیں سے ہماری زندگی میں اندھیرا ہی اندھیرا ہو جائے گا پھر چاہے ظاہری روشنی کے ہزار سامان کیوں نہ کر لیے جائیں۔

(۹۱۰۲-۷۰-۳۱)

حیدرآباد