رسول اللہ ﷺ کی ایک حدیث میں یہ بات ملتی ہے کہ اس کائنات میں آنے والا ہر انسان دین اسلام ہی پر پیدا ہوتا ہے، پھر بعد کو اس کے ماں باپ اسے اپنے مسلک و مذہب کے سانچہ میں ڈھال دیتے ہیں۔ (صحیح البخاری، کتاب الجمعۃ، باب من انتظر حتیٰ یدفن، حدیث نمبر:۱۳۵۹)

اس میں جہاں یہ بات پتہ چلتی ہے کہ عالم دنیا میں وجود پانے والا ہر انسان مذہب ِ اسلام کا پیروکار ہوتا ہے وہیں یہ بات بھی واضح ہو جاتی ہے کہ اسلام ہی وہ واحد مذہب ہے جو اللہ تعالیٰ کے یہاں قابل قبول ہوگا اور نجات کا ذریعہ بنے گا، خود قرآن کریم نے بھی یہی پیغام دیا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے یہاں دین اسلام ہی کو قبول کیا جائے گا۔

اس حقیقت کے واضح ہو جانے کے بعد اس سوال کا پیدا ہونا فطری بات ہے کہ مذہب ِ اسلام ہی کوکیوں اتنا اہم قرار دیا گیا ہے کہ اسی کو معیار اور کسوٹی بنادیا گیا اور اس کے سوا تمام آسمانی مذاہب کو منسوخ کر دیا گیا؟ اس سوال کا جواب یقیناً یہی ہوگا کہ چونکہ مذہب اسلام آخری مذہب کی شکل میں، حضرت محمد ﷺ آخری رسول اور نبی کے طور پر اور قرآن مجید آخری دستور کی حیثیت سے رہتی دنیا تک کے لئے اللہ تعالیٰ کی جانب سے منتخب کر لئے گئے ہیں؛ لہٰذا اس کے سوا کوئی اور دوسرا مذہب قابل ِ قبول نہیں ہوگا۔ اس کی ایک دوسری اہم وجہ یہ بھی ہے کہ اب نہ کوئی اور نبی آنے والا ہے اور نہ کوئی اور کتاب نازل کی جانے والی ہے، اس لئے کسی نئی شریعت کا وجود اب ممکن نہیں رہا، لہٰذا دین اسلام ہی کو انسانیت کی کامیابی کا ضامن، محمد ﷺ کو کامل نمونہ اور قرآن مجید کو جامع کتاب ِ زندگی قرار دے دیا گیا۔

اب جب اللہ تعالیٰ نے اسی مذہب سے انسانیت کی کامیابی کو متعلق کر دیا ہے تو ہر انسان کی ذمہ داری ہے کہ وہ بذات ِ خود اس بات کی کوشش کرے کہ وہ اسلام کے رنگ میں رنگ جائے اور کسی دوسرے مذہب سے لا تعلق ہوجائے،لیکن زمینی حقائق کو سامنے رکھیں تو یہ بات ایک ناممکن سی نظر آتی ہے کہ پوری انسانیت ایک دین پر جمع ہوجائے اور سارے لوگ سنجیدگی کےساتھ ایک مذہب کو قبول کرلیں؛ اس لئے اب یہ ذمہ داری ان افراد کے کاندھوں پر منتقل ہوئی جنہیں اللہ تعالیٰ نے اسلام کی نعمت سے مالا مال فرمایا اور امت محمدیہ میں پیدا فرمایا کہ وہ اس نعمت کے ملنے پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کریں اور ساتھ ہی ساتھ اس بات کی کوشش میں لگے رہیں کہ وہ اس نعمت کو ان لوگوں تک بھی پہونچائیں جو اس سے محروم ہیں،اور اس تصور کے ساتھ یہ ذمہ داری انجام دیں کہ کل قیامت کے روز ان سے اس بارے میں پوچھ بھی ہو سکتی ہے۔

دوسری جانب اس حقیقت سے بھی انکار نہیں کیا جاسکتا کہ اس ذمہ داری کی ادائیگی کے لئے ہر مسلمان تیار نظر نہیں آتا ہے، بلکہ آٹے میں نمک کی مقدار کے برابر ہی ایسے لوگ ہوں گے جو اس صحراء کی خاک چھان رہے ہیں اور اس میدان میں خدمات انجام دے رہے ہیں، ان کے عزم و حوصلہ کو اور ان کی خدمات کو ثمر آور ہوتا دیکھ کر بہت سے افراد کے سینوں میں بھی یہ تمنّا انگڑائی لیتی ہے کہ وہ بھی اس میدان میں اتریں اور عالَم انسانیت کے سسکتے اور کفر و شرک کی تاریک گھاٹیوں میں بھٹکتے ہوئے فرزندانِ آدم کو دین ِ اسلام کی طرف دعوت دیں ، لیکن دعوتِ دین کے کسی مخصوص طریقہ یا نہج سے ناواقفیت کی بناء پر وہ اپنی اس تمنّا کو دم توڑتا ہوا دیکھتے ہیں ، حالانکہ اس بات میں کوئی دو رائے نہیں ہے کہ دعوت إلی اللہ کے لیے کوئی مخصوص طریقہ ہر گز متعین نہیں ہے کہ صرف وہی قابل عمل ماناجائے گا اور اس کے علاوہ کسی اور طرزِ دعوت کو بدعت قرار دے دیا جائے گا؛ کیونکہ وقت اور زمانہ،حالت اور جگہ حتیٰ کہ مخاطب کی فکر و رائے کی تبدیلی بھی طریقۂ دعوت کی تبدیلی کا سبب بن جاتی ہے،اور یہی تبدیلی اسلام کی لچک پذیری کی عکاس ہے کہ جس کی بناء پر آج بھی دائرۂ اسلام میں داخل ہونے والے افراد کی تعداد بے شمار ہے۔

طریقۂ دعوت پر کچھ لکھنے سے پہلے بہتر ہوگا کہ ہم دیکھیں کہ عہد نبوی سے پہلے دعوت دین کا طرز و طریقہ کیا تھااورجنہیں دین کی دعوت دی جاتی تھی وہ لوگ کس قسم کے ہوا کرتے تھے؛ چنانچہ حضرت ابراہیم ؑ نے جب اپنے زمانہ کے بادشاہ’’ نمرود‘‘ سےگفتگو کی اور اسے دین کی دعوت پیش کی تو اولاً اسے اللہ تعالیٰ کی وحدانیت و الوہیت کی دلیل کے طور پر یہ بات کہی کہ میرا رب تو وہ ذات ہے جو زندگی اور موت عطا کرتا ہے، اس پر نمرود نے کہا کہ یہ تو میں بھی کر سکتاہوں ،اس کے اس جواب سے حضرت ابراہیم ؑ اس کی ذہنی سطح کو بھانپ گئے اور پھر اسے ا یسی دلیل دی کہ وہ لاجواب ہوگیا؛ چنانچہ فرمایا کہ میرا رب سورج کو جانب مشرق سے نکالتا ہے اگر تم حقیقی معبود ہو_ _جیسا کہ تمہارا خیال ہے__ تو ذرا اس سورج کو مغرب کی سمت سے نکال کر دکھا دو، آپ ؑ کی اس گرفت پر وہ ہکا بکا ہو گیا اور اس کی عقل نے اس دلیل کے سامنے گھٹنے ٹیک دیئے____اس واقعہ میں غور کریں کہ جب حضرت ابراہیم ؑ نے اس کی طبیعت میں پوشیدہ تکبر کو محسوس کیا تو اسے ایسی دلیل سے زیر کیا کہ جس نے اس کے لا شعور کو جھنجھوڑ کر رکھ دیا اور یہ سوچنے پر مجبور کردیا کہ یقیناً ایسی کوئی ذات موجود ہے جس کی قدرت اس کائنات کے نظام کے پیچھے کارفرما ہے ، مزید دیکھیں کہ فرعون کے دربار میں حضرت موسیؑ اور فرعون کے درمیان مکالمہ جاری ہے ، فرعون بھی خدائی کا دعوی دار تھااور کئی لوگ اسے سجدہ کر کے اس کے اس خیال کو تقویت بخشتے تھے،حضرت موسیؑ نے اس کے درباریوں کی موجودگی میں اسے واضح دلائل دے کر یہ سوچنے پر مجبور کر دیا کہ حقیقی خدا اور معبود تو کوئی اور ذات ہے، اب ذرا اور آگے چلیں اور عہد نبوی پر نگاہ ڈالیں اور غور کریںتو پتہ چلے گا کہ دین ِ اسلام کے ظہور کے بعد کسی نے اولین لمحات میں اس دعوت پر لبّیک کہا تو کسی کو فتح مکّہ کے موقع پر یہ سعادت نصیب ہوئی ،اور کئی تو ایسے تھے جوفتح مکّہ کے بعد حلقہ بگوش اسلام ہوئے تھے، اس کا سبب دعوت دین میں یا داعی کی شخصیت میں کسی کمی کا ہونا ہرگز نہ تھا بلکہ یہ مدعو کے افکار و نظریات تھے، جنہیں بدلنے میں بعض کو چند لمحے لگے تو وہیں بعض کو انہیں بدلنے میں کئی برس بیت گئے،پھر خود نبی ﷺ کا مثبت رویّہ ان میں دین اسلام کے پھیلنے کا اہم سبب بنا، صلح حدیبیہ کے موقع پر آپ ﷺ نے کفار قریش کی ظالمانہ شرطیں قبول فرما کر جہاں ایک نئی تاریخ رقم فرمائی وہیں آپ نے مذہب ِ اسلام کو اپنی جڑیں مضبوط کرنے کا ایک بڑا موقع فراہم کیا، اسی طرح آپ نے اپنی نبوی فراست و دور اندیشی کا استعمال فرماتے ہوئے جب سربراہانِ ممالک کے نام خطوط لکھوائے تو اس میں ان سربراہان کی ذہینت و فطرت اور ان کے رتبہ و مقام کا بھی لحاظ رکھا ، مثلاً جب شاہِ روم کے نام خط لکھوایا تو اسے کے لئے ـ’’عظیم الروم‘‘ کا لقب استعمال فرمایا،حالانکہ اللہ تعالیٰ کی اور اس کے رسول کی عظمت کے سامنے اس کی بڑائی کوئی معنیٰ نہیں رکھتی تھی مگر آپﷺ نے تالیف قلب کی خاطر اور اس کے دل میں اسلام کی انسیت پیدا کرنے کی غرض سے اس کا استعمال روا رکھا، نیز مختلف فرمانرواؤں کی جانب مختلف قاصدوں کو بھیجنے میں جہاں دیگر مصلحتیں تھیں وہیں یہ بات بھی پیش نظر تھی کہ وہ قاصدین اس علاقہ کی تہذیب و ثقافت اور وہاں کے نظریات و معتقدات سے کسی حد تک واقف تھے، حتیٰ کہ آپ نے اس سلسلہ میں رنگ اور زبان کا بھی لحاظ فرمایا ؛چنانچہ ملک روم کے لیے حضرت دحیہ کلبی ؓ کو بحیثیت قاصد کے منتخب فرمایا،اس کی ایک اہم وجہ یہ بھی تھی کہ ان کا رنگ گورا تھا اور رومیوں کا رنگ بھی گورا ہوا کرتا ہے، اس انتخاب کا مقصد یہ تھا کہ وہاں کے مقامی افراد کو ان سے وحشت نہ ہو اور انہیں اشاعت دین میں سہولت رہے۔

اس کے بعد دیکھیں کہ عمومی طور پر مدعو افراد دو طرح کے ہوا کرتے ہیں : ایک تو وہ جنہیں قرآن نے ’’الملأ‘‘ کے لفظ سے تعبیر کیا ہے ، اس سے وہ لوگ مرادہوا کرتے  ہیںجو معاشرہ میں اثر و رسوخ والے سمجھے جاتے ہیں ،سیاہ و سپید کے مالک ہوتے ہیں اور کسی حد تک قوت نافذہ بھی رکھتے ہیں،ایسے لوگوں کی فطرت میں تکبر و انانیت کا عنصر غالب ہوتا ہے جس کے نتیجہ میں وہ دعوت کی اعلانیہ طور پر مخالفت کرتے ہیںاور اس کی سرکوبی میں پیش پیش رہتے ہیں، قرآن نے متعدد جگہوں پر ان کا تذکرہ بھی کیا ہے ؛ چنانچہ ارشاد ہے:

(سبا:۳۴) نیز حضرت نوح ؑ کی قوم سے متعلق ارشاد ہے :

(الاعراف:۶۰) اسی طرح ارشاد ہے:

(ص:۶) ___قرآن پاک کی ان مذکورہ آیات میں کفار و مشرکین کے رویّہ کا جائزہ لینے کے بعد دین اسلام سے ان کی عداوت اور اس کی مخالفت کے جو اسباب سامنے آتے ہیں وہ تین طرح کے ہیں:

(۱) تکبر: دعوت دین سے عداوت کا پہلا سبب ان کا تکبّر تھا جو انہیں اسلام کے قبول کرنے سے روکتا تھا ، تکبر درحقیقت ایک نفسیاتی کیفیت کا نام ہے جس کا اظہار مختلف شکلوں میں ہوتا رہتا ہے ؛ خود قرآن کریم کی بعض آیات میں اس کی جانب اشارہ ملتا ہے؛ چنانچہ ارشاد ہے:

(النمل:۱۴) نیز فرعون سے متعلق ارشاد ہے:

(النازعات:۲۴)حضرت ابراہیم ؑ کے زمانہ میں موجود بادشاہ ’’نمرود‘‘ سے متعلق فرمان ہے:ــ

(البقرۃ:۲۵۸) کفار مکّہ کی فطرت کی ترجمانی کرتے ہوئے کہا گیا ہے:ــ

(الزخرف:۳۱) الغرض ان تمام آیات میں مشترکہ طور پر جو بات واضح کی گئی ہے وہ یہ کہ کفار و مشرکین میں جذبۂ تکبر و انانیت کچھ اس طر ح سے کار فرما تھا کہ اس کی وجہ سے وہ دعوت دین کو قبول کرنے سے رکے ہوئے تھے۔

(۲) حبّ جاہ: یہ دوسری وجہ تھی جس کی وجہ سے کفار و مشرکین دعوت الٰہی کو قبول کرنے سے رکے تھے ،گویا انہیں اس بات کا خوف تھا کہ اگر انہوں نے اس دین کو قبول کر لیا تو انہیں اپنے منصب و ریاست سے اور عزت و شہرت سے ہاتھ دھونا پڑے گا ، قرآن مجید نے ان کے اس مرض کو یوں بیان کیا:

(المؤمنون:۲۴)  

(۳) جہالت: دعوت ِ دین سے دشمنی کی سب سے بڑی اور عام وجہ جہالت اور ناواقفیت تھی ، اور یہی وہ وجہ ہے جس کی بناء پر انسان خدا تک کا انکار کر بیٹھتا ہے ،انبیاء کی تحقیر و تذلیل پر اتر آتا ہے اور دین حق سے منسلک ہونے والوں پر مظالم ڈھانے کو اپنا پسندیدہ مشغلہ بنا لیتا ہے ، قرآن کریم میںحضرت نوحؑ کی قوم سے متعلق ارشاد ہے:

(ہود : ۲۷) یہ قوم ِ نوح کی جہالت ہی تھی کہ وہ کہتے تھے کہ تم بھی تو ہماری طرح ایک انسان ہی ہو تو تمہارے پاس وحی کیوں کر آسکتی ہے؟ اور اگر بالفرض تم نبی ہوتے تو تمہاری اتباع کرنے والے لوگ مالدار اور اونچے درجہ کے ہونے چاہئے تھے نہ کہ پچھڑے ہوئے طبقہ کے عام لوگ، گویا ان کے نزدیک کسی نبی کی سچائی کا معیار یہ تھا کہ اس کی اتباع قوم کے بڑے اور مالدار لوگ کرتے ہوں ،بصورت دیگر نبی کی نبوت اور اس کی دعوت قابل اعتناء نہ رہے گی۔

دوسری قسم ان لوگوں کی ہے جنہیں ہم عامۃ الناس کا نام دے سکتے ہیں یا جنہیں قوم نوح نے ’’اراذل ‘‘کا لقب دیا تھا، اور حقیقت تو یہی ہے کہ ہر دور میں دین کی دعوت کو قبول کرنے والے لوگوں میں ایسے ہی افراد پیش پیش رہتے ہیں اور یہی لوگ پہل کرتے ہیں؛چنانچہ جب ہرقل نے حضرت ابو سفیان ؓ سے دریافت کیا کہ تمہارے شہر میں جس شخص نے نبوت کا دعویٰ کیا ہے اس کی اتباع کس قسم کے لوگ کرتے ہیں؟ تو حضرت ابو سفیانؓ کا جواب یہی تھا کہ ہماری قوم کے کمزور اور غریب طبقہ نے ان کی دعوت پر لبّیک کہا ہے ، اس پر ہرقل نے آپ ﷺ کی دعوت کی اور آپ کی نبوت کی تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ ہر دور میں اسی طبقہ کے لوگ نبی کی پیروی کرنے میں پہل کرتے ہیں۔

اس طبقہ کے دعوتِ دین کو اولین مرحلہ میں قبول کرنے کی جہاں دیگر وجوہات ہو سکتی ہیں وہیں ایک نمایاں وجہ یہ بھی ہے کہ یہ لوگ ان تمام منفی جذبات اور عناصر سے خالی ہوتے ہیں جو دعوت ِ دین کو قبول کرنے میں مانع ہوا کرتے ہیں، نہ ان میں حکومت و ریاست کی چاہت ہوتی ہے اور نہ ہی ان کے نفوس تکبر سے بھرے ہوتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ وہ دعوت ِ دین کو بہت جلد قبول کرلیتے ہیں۔

دین ِاسلام سے دشمنی اور حق کو قبو ل کرنے میں رکاوٹ بننے والے اسباب و عناصر کے واضح ہوجانے کے بعد یہ حقیقت بھی سامنے آجاتی ہے کہ عہد نبوی اور اس سے پہلے کے ادوار میں پائےجانے والے دین کو قبول کرنے اور حق کے اختیار کرنے سے مانع اسباب وعناصر تھوڑی بہت کمی یا زیادتی کے ساتھ آج کی اقوام میں بھی موجود ہیں،بہت ممکن ہے کہ ان کی کیفیت میں فرق آگیا ہو لیکن موجودتو ضرور ہیں، لیکن جس طرح رسول اللہ ﷺ نے تمام رکاوٹوں کی پرواہ کئے بغیر کلمۂ حق کو بلند کیا اور ایک معبود بر حق کی طرف لوگوں کو بلایا اسی طرح کاروانِ محمدی کے ہر پیادہ کے یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی جانب سے اس دین کی اشاعت و ترویج کی ہر ممکن کوشش کرے ،ساتھ ہی ساتھ اگر دعوت دین کی اپنی کوششوں میں مندرجہ ذیل امور کی رعایت کر لی جائے تو زیادہ سے زیادہ فائدے کے امکانات ہیں:

(الف) اپنے اور اپنے رب کے درمیان موجود تعلق کو اخلاق حسنہ ،دعاءا ور سوز دل کے ذریعہ مضبوط کرتا رہے۔

(ب) اس بات کا خیال رکھے کہ ہر انسان کی سوچ اور فکر مختلف ہوا کرتی ہے ،کبھی علاقہ کا تو کبھی عرف کا انسانی سوچ پر اثر ہوتا ہے ، اس حقیقت کو مد نظر رکھتے ہوئے مخاطب کو دعوت دینی چاہئے۔

(ج) ہر فرقہ اور جماعت کے کچھ بنیادی عقائد و اصول ہوا کرتے ہیںاور دین کے سلسلہ میں ان کا اپنا ایک مخصوص ذوق ہوا کرتا ہے، ان امور کی رعایت کرتے ہوئے دین کی دعوت دینا از حد ضروری ہے۔

(د) بسا اوقات مخاطب میں تعلیم و ثقافت اور موروثی خیالات کسی حد تک کار فرما ہوتے ہیں ، اس قسم کے لوگوں سے گفتگو کرتے وقت اس بات کا دھیان رکھا جائے کہ ان سے کوئی ایسی بات نہ کہی جائے جس کی وجہ سے وہ دین اسلام سے بدظن اور متنفر ہوجائیں۔

(ہ) ہر قوم کے کچھ اغراض و اہداف ہوا کرتے ہیں، کچھ مخصوص نعرے یا تحریکیں ہوا کرتی ہیں ،بسا اوقات یہ چیزیں مادی بنیادوں پر قائم رہتی ہیں تو کبھی اخلاقی یا روحانی بنیادوں پرمبنی ہوتی ہیں، اس قسم کے لوگوں سے گفتگو کرتے وقت ان امور کا لحا ظ کرنا اور ان کی سوچ اور فکر کی رعایت کرنا مفید ثابت ہوگا۔

ان تمام مراحل سے گزرنے کے بعد جب دعوتِ دین کی یہ صدا مخاطب کے کانوں سے ہوتے ہوئے اس کے دل پر دستک دیتی ہے تو اس کا ردّ عمل بھی اس کی فطرت کے اعتبار سے مختلف اور جدا ہو تا ہے ، گویا اپنے ردّ عمل کے اعتبار سے مدعو اور مخاطب کو پانچ قسموں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے:

(۱) پہلی قسم تو ان افراد کی ہے جو دعوت ِ حق کو پوری توجہ کے ساتھ سنتے ہیں اور بغیر کسی عناد و تعصّب کے اس کا جائزہ لیتے ہیں، اور پہلے مرحلہ ہی میں کامل یقین و اطمینان کے ساتھ اسے قبول کرلیتے ہیں، حضرت ابوبکر ، حضرت خدیجہ اور حضرت علی رضی اللہ عنہم کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔

(۲) دوسری قسم ان لوگوں کی ہے جن کی فطرت میں لا ابالی پن ہوتا ہے ،یہ لوگ دعوت کی بات سنتے ضرور ہیںلیکن ان میں کسی فوری تبدیلی کا اثر ظاہر نہیں ہوتا ہے ؛ البتہ یہ لوگ اپنی فکر کا ایک حصہ اس دعوت کے لئے خاص کر دیتے ہیں ___اس قسم کے لوگوں سے رابطہ بنائے رکھنا چاہئے اور جب جب مناسب موقع ملے انہیں دین کی دعوت دیتے رہنا چاہئے۔

(۳) تیسری قسم ان لوگوں کی ہے جو دعوت دین کو شک و شبہ کی نگاہ سے اور حیرت و تردد سے ملے جلے جذبات کے ساتھ دیکھتے ہیں، نیز یہ افراد کسی ذاتی وجہ سے یا دیگر تعصّب پرست افراد کے خوف سے فوراً اسے قبول کرنے کے موقف میں نہیں رہتے ___اس قسم کے لوگوں کو دعوت دینے میں نرمی اور ہمدردی کا پہلو مد نظر رکھتے ہوئے کسی بھی قسم کی سختی یا زبردستی سے احتراز کرنا چاہئے،اور انہیں غور و فکر، تدبّر و دوراندیشی کے ساتھ فیصلہ کرنے کی ترغیب دینی چاہئے، قرآن مجید میں ارشاد ہے:ـــ

(سبا:۴۶) لہٰذا ان لوگوں کو اپنی دینی مجلسوں میں شرکت کی دعوت دی جائے ، مطالعہ کے لئے آسان زبان میں دعوتی کتابچے ہدیہ کے طور پر دیئے جائیں؛تاکہ وہ کسی نتیجہ پر پہونچ کر مثبت فیصلہ کر سکیں۔

(۴) بعض لوگ دین کی دعوت قبول تو کر لیتے ہیں لیکن ان کا مقصد مادّی وسائل اور دنیوی منافع کا حصول ہوتاہے، اس قسم کے لوگ نقصان دہ ثابت ہوتے ہیں، قرآن مجید میں ارشاد ہے :

(الحج:۱۱) البتہ یہ بات ملحوظ رہے کہ دل کی حالت کا صحیح علم اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کو نہیں ہو سکتا ؛لہٰذا کسی بھی قسم کے تجسس سے احتیاط کیا جائے ، اس کے ساتھ ساتھ ایسے لوگوں کو جان و مال کی قربانیوں سے متعلق فضائل بتائے جائیں ،اسلام کے نظام سزا و جزا ء سے واقف کروایا جائے ؛تاکہ ان کا باطن سنور جائے۔

(۵) آخری قسم ان لوگوں کی ہے جن کے متعلق قرآن کہتا ہے:ــ

(البقرۃ:۷) یہ وہ لوگ ہیں جو دین اسلام کی حقانیت و آفاقیت سے بخوبی واقف ہونے کے باوجود اس سے بغض و عناد رکھتے ہیں اور اس کی مخالفت میں ایڑی چوٹی کا زور لگا دیتے ہیں، جن پر جارحانہ سوچ اور خواہشات نفس غالب رہتی ہیں جس کی وجہ سے یہ لوگ حق کو قبول کرنے کی سعادت سے محروم رہتے ہیں ___اس قسم کے افراد کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آنا چاہئے ،’’قَالُوا سَلَامًا‘‘ اور ’’وَصَاحِبْهُمَا فِي الدُّنْيَا مَعْرُوفًا‘‘ جیسی قرآنی نصیحتوں کو دامنِ دل سے باندھے رکھنا چاہئے ،نیز ان کے حق میں ہدایت کی دعا بھی کرتے رہنا چاہئے ، خود نبی ﷺ نے حضرت عمر ؓ اور ابو جہل کے لئے ہدایت کی دعا فرمائی تھی جو حضرت عمر ؓ کے حق میں قبول ہوئی تھی ۔

خلاصہ یہ کہ ان تمام باتوں سے جہاں دین کی دعوت کی اہمیت کا پتہ چلتا ہے وہیں داعی کے لئے مطلوبہ اوصاف ، مناسب طرز و طریقہ ٔ دعوت کے انتخاب اور مدعو کے افکار و نظریات سے واقفیت کی اہمیت کا بھی بخوبی اندازہ ہو جاتا ہے ، جنہیں مشعلِ راہ بنا کر کفر و شرک کی تاریکیوں میں ڈوبی دنیا میں ایمان و اسلام کی شمعیں روشن کی جاسکتی ہیں، کہ جب شمع کی روشنی پھیلے گی تو پروانے خود بخود آتے چلے جائیں گے اور اپنے نفوس کی قربانی دے کر رشد و ہدایت کی شمع کو جاودانی بخشیں گے، وما ذلک علی اللہ بعزیز۔

نوٹ: اس مضمون کی تیاری میں ان کتابوں سےمدد لی گئی ہے :

ث ’’الدعوۃ إلی اللہ‘‘، از: دکتور توفیق الواعی ،ط:دار الیقین،مصر

ث ’’أصول الدعوۃ‘‘،از:الشیخ عبد الکریم زیدان،ط: مؤسسۃ الرسالۃ،بیروت

Categorized in: