[email protected] – مصنف – محمد فرقان فلاحی

بسم اللہ الرحمن الرحیم

چھ سالہ بتول گاؤں سے تھوڑے فاصلے پر ایک گھر میں اپنی امی کے ساتھ رہا کرتی تھی، اس کے ابو کسی سیٹھ صاحب کے یہاں نوکری کرتے تھے اس لیے وہ اکثر شہر میں رہا کرتے اور مہینے میں ایک دو مرتبہ گھر آ جاتے تھے۔ ان کے گاؤں میں کوئی دواخانہ نہیں تھا اور لوگوں کو علاج کے لیے شہر جانے میں بڑی پریشانیاں ہوتی تھیں اس لیے بتول کی امی کی خواہش تھی کہ ان کی بیٹی بڑی ہو کر اچھی تعلیم حاصل کرے اور ڈاکٹر بنے۔ اپنے شوہر کی کمائی کے علاوہ وہ خود بھی محنت کرتی اور ہفتہ میں ایک دن گاؤں کے باہر جنگل سے لکڑیاں کاٹ کر لاتی اور انہیں گاؤں میں لگنے والے بازار میں بیچ کر کچھ پیسے جمع کرتی تھی؛ تاکہ ضرورت کے وقت کام آ سکیں۔

ہمیشہ کی طرح بتول کی امی نے صبح جلدی اٹھ کر بتول کو جگایا تاکہ وہ اسکول جانے کے لیے تیار ہو جائے، ادھر بتول تیار ہو کر اپنا اسکول کا بستہ لے کر نکلی اور ادھر اس کی امی لکڑیاں کاٹنے کے لیے جنگل کی طرف چل پڑی، پتہ نہیں اس دن کیا بات تھی کہ بتول کی امی لکڑیاں کاٹنے کے لیے کچھ زیادہ دور چلی گئی۔ بتول اسکول سے لوٹ کر جب گھر لوٹی تو دیکھا کہ امی گھر پر نہیں ہے، وہ سمجھ گئی کہ امی جنگل گئی ہوئی ہیں اور کچن میں جا کر کچھ کھانا کھا کر سو گئی۔

اسے سوئے ہوئے ابھی تھوڑی دیر بھی نہ ہوئی تھی کہ اسے محسوس ہوا کہ گھر میں کوئی چور گھس آیا ہے، اس نے بستر پر لیٹےلیٹے ہی تھوڑی سی آنکھ کھول کر دیکھا کہ ایک لمبا چوڑا شخص اس کے امی کی الماری کو کھولنے کی کوشش کر رہا ہے۔ ایک طرف تو اسے اتنا ڈر لگ رہا تھا کہ اس کی آواز ہی نہیں نکل پا رہی تھی اور دوسری طرف اسے اس بات کا ڈر تھا کہ اس کی امی نے اتنی سخت محنت سے جو پیسے جمع کیے ہیں کہیں وہ چور اسے چرا نہ لے۔

کچھ منٹ تک وہ ایسے ہی لیٹی رہی اور چور اپنی کوشش میں لگا رہا، وہ چور الماری کھولنے میں اتنا مگن تھا کہ اسے پتہ ہی نہیں چلا کہ بتول اس کی ساری حرکتوں کو دیکھ رہی ہے، تبھی اچانک بتول کو یاد آیا کہ کچن کی کھڑکی کھلی ہے، چنانچہ بتول ہمت کر کے بستر سے اٹھی اور کچن کی طرف بھاگی، اسے دیکھ کر چور ایک دم ڈر کے پیچھے ہٹا پھر وہ بتول کو پکڑنے کے لیے اس کے پیچھے دوڑا، جلدی میں اس کا پیر کسی چیز سے ٹکرایا اور وہ دھڑام سے زمین پر گر پڑا، جیسے تیسے کر کے وہ اٹھا اور کچن کی طرف بھاگا، تب تک بتول کچن کی کھڑکی تک پہنچ چکی تھی، بتول جلدی سے کھڑکی سے باہر کی طرف کود پڑی، چور بھی اس کے پیچھے کھڑکی کی طرف لپکا اور بتول کی طرح باہر کودنے کے لیے بغیر کچھ سوچے سمجھے کھڑکی کی طرف بڑھا، چور نے اپنے دونوں ہاتھ کھڑکی کے باہر نکالے اور باہر کی طرف کھسکنے لگا، لیکن کھڑکی چھوٹی تھی اور وہ چور لمبا چوڑا تھا جس کی وجہ سے وہ درمیان ہی میں پھنس گیا، نہ وہ پیچھے جا پا رہا تھا اور نہ ہی آگے کی طرف بڑھ سکتا تھا۔

بتول نے جب یہ دیکھا تو اس کے دماغ میں فوراً ایک ترکیب آئی، وہ جلدی سے گھوم کر گھر کے دروازے کی طرف آئی اور دروازے کو باہر سے بند کر دیا اور دوڑتی ہوئی گاؤں میں جا کر لوگوں کو بتایا۔ سب دوڑے دوڑے اس کے گھر پہنچے، کیا دیکھتے ہیں کہ چور ابھی تک اسی طرح کھڑکی میں پھنسا ہوا ہے۔ لوگوں نے اسے کھینچ کر باہر نکالا اور اسے خوب پیٹا۔ اتنے میں گاؤں کے تھانے دار  صاحب بھی پہنچ گئے اور چور کو پکڑ کر تھانہ لے گئے۔

بتول کی امی جب گاؤں پہنچی تو اپنے گھر کے باہر اتنے سارے لوگ اور پولس دیکھ کر وہ گھبرا گئی، تیزی سے چلتے ہوئے وہ گھر پہنچے تو دیکھا کہ سب بتول کی حاضر دماغی اور ہمت کی تعریف کر رہے ہیں اور اسے انعام دے رہے ہیں، انہیں کچھ سمجھ میں نہیں آیا کہ کیا ہو رہا ہے۔

جب تھانے دار   صاحب نے انہیں پوری کہانی سنائی تو ان کی حیرت کی انتہا نہیں رہی کہ بتول نے کیا کارنامہ انجام دیا ہے۔ انہوں نے اسی وقت بتول کے ابو کو فون کر کے پورا واقعہ سنایا، بتول کے ابو بھی بہت خوش ہوئے اور اسی وقت گھر آنے کے لیے نکل پڑے، وہ بھی بتول کے لیے ایک بہترین سا تحفہ  اور ڈھیر ساری مٹھائیاں لے کر۔

سبق:

پیارے بچو! اس کہانی سے ہمیں یہ سبق ملتا ہے کہ چاہے کیسی ہی مصیبت اور پریشانی کیوں نہ آ جائے، اس کا کوئی نہ کوئی حل ضرور ہوتا ہے، بس ضرورت ہوتی ہے کہ ہم ہمت سے کام لیں اور اپنے دماغ پر قابو رکھیں۔ اس طرح سے ہم بڑی سے بڑی مشکل کا آسانی سے مقابلہ کر سکتے ہیں اور ہر مصیبت سے لڑ سکتے ہیں!

ذرا بتائیے تو:

  • بتول کی امی بتول کو کیا بنانا چاہتی تھی؟
  • بتول کے گاؤں میں کتنے دواخانے تھے؟
  • بتول کی امی لکڑیاں کاٹنے کہاں جاتی تھی؟
  • چور کس چیز کو کھولنے کی کوشش کر رہا تھا؟
  • چور کھڑکی میں کیوں پھنس گیا تھا؟
  • بتول کے ابو  اس کے لیے کیا لے کر آنے والے تھے؟