مصنف – محمد فرقان فلاحی
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
حدیث پاک میں رسول اللہ ﷺ کا یہ ارشاد ملتا ہے کہ آپ ﷺنے ارشاد فرمایا:ـ’’إِنَّ لِرَبِّکُمْ فِیْ أَیَّامِ الدَّھْرِ نَفَحَاتٌ فَتَعَرَّضُوْا لَھَا‘‘(المعجم الاوسط، حدیث نمبر:۶۲۴۳ ) کہ زمانہ میں کبھی کبھی تمھارے رب کی جانب سے خیر و برکت کی ہوائیں چلتی ہیں(پس جب جب وہ چلے تو)خود کو ان کے سامنے پیش کر دیا کرو۔ اس حدیث سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ جب جب اللہ تعالیٰ کی جانب سے رحمت و مغفرت کی اور اس کے انعام و اکرام کی خصوصی ہوائیں چلیں تو انسان کو ان سے زیادہ سے زیادہ استفادہ کرنا چاہئے اور اپنی مغفرت کی زیادہ سے زیادہ کوشش کرنی چاہیے۔
اس پس منظر میں ماہ رمضان المبارک کو دیکھیں تو یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ ماہ رمضان بھی اللہ تعالیٰ کی جانب سے انسانیت کے لئے ایک عظیم تحفہ ہے کہ ہر وہ انسان جس کا دل گناہوں سے آلودہ ہو گیا ہو اور جس کی روح اللہ کی نافرمانیاں کرنے کی وجہ سے مجروح ہو چکی ہو اس کے لئے اس ماہ میں اللہ تعالیٰ مغفرت و بخشش کی ہوائیں کچھ اس انداز سے چلاتے ہیں کہ اگر وہ ان کی قدر کر لے تو اس کی مغفرت بہت آسان ہے۔
اس مغفرت کے آسان ہو جانے کی ایک اہم وجہ یہ ہے کہ اس ماہ مبارک میں شیاطین کو قید کر دیا جاتا ہے، جیسا کہ حدیث شریف میں وارد ہوا ہے:’’إِذَا جَاءَ رَمَضَانُ، فُتِحَتْ أَبْوَابُ الْجَنَّةِ وَغُلِّقَتْ أَبْوَابُ النَّارِ وَصُفِّدَتِ الشَّیَاطِیْنُ‘‘(صحیح مسلم، حدیث نمبر:۱۰۸۰)کہ جب ماہ رمضان شروع ہوتا ہے تو جنت کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں اور جہنم کے دروازے بند کر دیئے جاتے ہیں، نیز تمام شیاطین کو قید کر دیا جاتا ہے۔
اس بات میں کو ئی شک نہیں کہ انسان کے دو بڑے دشمن ہیں: ایک اس کا نفس جو اندرونی طور پر اسے ورغلاتا رہتا ہے اور دوسرا شیطان جو اسے برائیوں پر آمادہ کرتا ہے اور اکساتا ہے، جب ان دو دشمنوں میں سے ایک کو قید کر لیا جائے تو ظاہری بات ہے کہ انسان کے لئے ایک دشمن سے مقابلہ کرنا آسان ہوجائے گا اور اس پر فتح پا لینا مشکل نہیں ہوگا۔
رمضان کے تین عشرے:
پھر اس ماہ مبارک میں اللہ تعالیٰ نے خصوصی انعام یہ فرمایا کہ اس ماہ مقدس کے تین عشروں کو اپنی تین الگ الگ رحمتوں کے ساتھ خاص کردیا ہے؛ چنانچہ حدیث پاک میں ارشاد ہے:’’….و ھو شھر اولہ رحمۃ، و اوسطہ مغفرۃ، و آخرہ عتق من النار….‘‘(صحیح ابن خزیمہ، حدیث نمبر:۱۷۷۸) کہ ماہ رمضان کا پہلا حصہ رحمتوں کا ہے، دوسرا حصہ مغفرت و بخشش کا ہے اور تیسرا حصہ جہنم کی آگ سے چھٹکارے کا ہے۔
رمضان کا پہلا عشرہ – رحمت:
گویا اس ماہ کے پہلے عشرہ میں اللہ تعالیٰ کی رحمتیں خصوصی طور پر بندوں کی جانب متوجہ ہوتی ہے اور ہر ایک مسلمان شخص سے تقاضہ کرتی ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی ان رحمتوں سے فائدہ اٹھا لے، تو آئیے دیکھتے ہیں کہ اس پہلے عشرہ میں اللہ تعالیٰ کی رحمتیں کن کن شکلوں میں ظاہر ہوتی ہیں۔
اللہ تعالیٰ کی سب سے بڑی رحمت تو اس شکل میں ظاہر ہوتی ہے کہ جنت کے تمام دروازے کھول دیئے جاتے ہیں اور جہنم کے تمام دروازے بند کر دئیے جاتے ہیں؛چنانچہ ابوہریرہ ؓ آپ ﷺ کا ارشاد نقل کرتے ہیں کہ آپ نے فرمایا کہ جب ماہ رمضان کی پہلی رات ہوتی ہے توشیاطین و سرکش جنات کو قید کردیا جاتا ہے،جہنم کے دروازوں کو بند کردیا جاتا ہے اور جنت کے دروازوں کو کھول دیا جاتا ہے، اور ایک اعلان کرنے والا یہ اعلان کرتا رہتا ہے کہ اے بھلائی کے چاہنے والے! آگے بڑھ اور اے برائی کے چاہنے والے (برائیوں کے ارتکاب سے)باز آ جا۔ (دیکھئے: ترمذی، حدیث نمبر:۶۸۲)
رحمتوں کے ظاہر ہونے کی دوسری شکل یہ ہوتی ہے کہ اس ماہ مبارک میں اللہ تعالیٰ سے ملاقات کا شوق بیدار ہو کراس کا ظاہر و باطن اللہ تعالیٰ کی یاد سے روشن و منورہو جاتاہے ،یہی وجہ ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ماہ رمضان کی مبارک ساعتوں کو غنیمت جاننے کا حکم دیاکہ کہیں ایسا نہ ہو کہ ہم رمضان کی رحمتوں و برکتوں سے محروم ہوجائیں؛چنانچہ حدیث پاک میں وارد ہوا ہے کہ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ ماہ رمضان کی ابتدا ہو چکی ہے جو برکتوں والا مہینہ ہے،جس میں اللہ تعالیٰ تمہیں اپنی رحمتوں میں ڈھانپ لیتے ہیں اور جس میں رحمتیں نازل ہوتی ہیں،تمہارے گناہ معاف کردیے جاتے ہیں اور تمہاری دعائیں قبول ہوتی ہیں،اللہ تعالیٰ نیکیوں کی جانب تمہاری پیش قدمی کو دیکھتے ہیں اور فرشتوں کی موجودگی میں تم پر فخرکرتے ہیں، پس تم اللہ تعالیٰ کو خود میں موجود نیکیوں کا جذبہ بتاؤ،اور نہایت ہی بد بخت ہے وہ شخص جو اس ماہ مبارک میں بھی اللہ تعالیٰ کی رحمتوں سے محروم رہ جائے۔(دیکھئے:مسند الشامیین للطبرانی، حدیث نمبر:۲۲۳۸)
اس ماہ کی ایک خصوصی رحمت یہ بھی ہے کہ اس مہینہ کے خاص اعمال( جیسے روزہ اور قیام اللیل)وغیرہ کو اخلاص اور ثواب کی نیت کے ساتھ کرنے والے کے تمام پچھلے گناہوں کو بخش دیا جاتا ہے،چنانچہ حدیث پاک میں ارشاد ہے:’’من صام رمضان ایمانا و احتسابا غفر لہ ما تقدم من ذنبہ ، ومن قام لیلۃ القدر ایمانا و احتسابا غفر لہ ما تقدم من ذنبہ‘‘،(بخاری، حدیث نمبر:۲۰۱۴) کہ جس شخص نے ایمان کے ساتھ ثواب کی نیت کرتے ہوئے رمضان کے روزے رکھے اس کے پچھلے تمام گناہ معاف کردیئے جاتے ہیں، اور جس نے ایمان کے ساتھ ثواب کی نیت کرتے ہوئے لیلۃ القدر میں عبادت کرلی اس کے پچھلے تمام گناہ معاف کردیئے جاتے ہیں۔
احادیث مبارکہ میں ان کے علاوہ اور بھی بہت سے امور ذکر کیے گئے ہیں جن سے پتہ چلتا ہے کہ ماہ رمضان میں اللہ تعالیٰ کی صفت رحمانیت عروج پر ہوتی ہے، اور اس رحمت سے فائدہ اٹھانے کے لیے انسان کو چاہئے کہ وہ دیگر عبادات کے ساتھ ساتھ ان چار عبادتوں کا خاص اہتمام کرے:روزہ ، تلاوت، اللہ تعالیٰ کی راہ میں خوب خرچ کرنا اور آخری عشرہ میں اعتکاف کرنا
رمضان کا دوسرا عشرہ – مغفرت:
ماہ رمضان کا دوسرا عشرہ مغفرت کا ہوتا ہے، قرآن پاک میں جہاں اللہ تعالیٰ کی دیگر صفات کا تذکرہ ملتا ہے وہیں اس کے ’’الغفور ‘‘ اور ’’ الغفار‘‘ہونے کا ذکر بھی ملتا ہے جس میں اللہ تعالیٰ کے نہایت مغفرت کرنے کی جانب اشارہ کیا گیا ہے،یوں تو انسان کو ہر وقت اپنے گناہوں پر نادم ہوکر ان کی مغفرت کروانے کی فکر کرتے رہنا چاہیے، لیکن ماہ رمضان میں چونکہ انسان اللہ تعالیٰ کی رحمتوں سے کچھ زیادہ قریب ہو جاتا ہے اس لیے اس ماہ میں انسان کے لیے مغفرت کروا لینا اور زیادہ آسان ہو جاتا ہے۔
اس مغفرت کی اہمیت کا اندازہ اس حدیث سے لگایا جا سکتا ہے کہ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ ہر انسان گناہ گار و خطاکار ہے اور بہترین گناہ گار وہ بندے ہیں جو توبہ کرنے والے ہوتے ہیں،(دیکھئے:سنن ترمذی، حدیث نمبر:۲۴۹۹)یعنی ایسے بندے جنہیں اپنی گنہ گاری کا احساس ہو جاتا ہے اور فوراً اللہ تعالیٰ کے حضور پہونچ کر اپنی مغفرت کروانے کی فکر کرتے ہیں اُن کی اس حدیث میں تعریف کی گئی ہے۔
نیز ایک اور حدیث میں رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ اس ذات کی قسم جس کے قبضۂ قدرت میں میری جان ہے! اگر تم لوگ گناہ نہ کرو تو اللہ تعالیٰ تمہیں ختم کرکے ایسی قوم لے آئے گا جو گناہ کرے گی اور پھر مغفرت طلب کرے گی اور اللہ تعالیٰ ان کی مغفرت بھی فرما دے گا(صحیح مسلم، حدیث نمبر:۲۷۵۱)،یعنی اللہ تعالیٰ کی صفت غفاری کا تقاضہ یہی ہے کہ جب جب کسی انسان سے کسی گناہ کا ارتکاب ہو جائے تو وہ اللہ تعالیٰ کی طرف رجوع ہو اور اپنے گناہوں کی مغفرت طلب کر لے کہ اسی میں اس کے لئے عافیت ہے اور یہی اس کے انسان ہونے کا تقاضہ ہے۔
اسی طرح اگر ہم نبی ﷺ کی حیات طیبہ پر نظر ڈالیں تو پتہ چلتا ہے کہ باوجود اس کے کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کی مغفرت کا اعلان قرآن پاک میں فرما دیا تھا پھر بھی آپ روزانہ سو سو بار اللہ تعالیٰ سے مغفرت طلب کیا کرتے تھے(دیکھئے :سنن ابن ماجہ،حدیث نمبر:۳۸۱۵) لہٰذا ہر انسان کو ماہ رمضان میں استغفار کی کثرت کرنا چاہئے اور اپنی زندگی میں ہونے والے گناہوں پر ندامت کے آنسو بہا کر ان سے توبہ کرنا چاہئے۔
رمضان کا تیسرا عشرہ – جہنم سے نجات:
ماہ رمضان کاآخری عشرہ جہنم کی آگ سے چھٹکارے کاہے کہ اس عشرہ میں اللہ تعالیٰ اپنے بہت سے بندوں کو جہنم کی آگ سے نجات نصیب فرماتے ہیں ، جیسا کہ حدیث شریف میں ارشاد ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا کہ جب ماہ رمضان کی آمد ہوتی ہے تو ہر رات اللہ تعالیٰ کی جانب سے بہت سارے لوگوں کو جہنم سے آزادی کا پروانہ دیا جاتاہے،(دیکھئے: سنن ترمذی، حدیث نمبر:۶۸۲) لیکن جہنم کی آگ سے چھٹکارا کیسے حاصل کریں اس کی تفصیل کے لئے ذخیرۂ حدیث میں چند خصوصی اعمال ملتے ہیں۔جیسے ایک حدیث میں ارشاد ہے کہ جو شخص کسی روزہ دار کو افطار کرواتا ہے اس کے گناہ معاف کردئیے جاتے ہیں اور اسے جہنم سے آزادی عطا کر دی جاتی ہے(دیکھئے :صحیح ابن خزیمہ، حدیث نمبر:۱۷۷۸)۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ کسی روزہ دار شخص کو افطار کروادینا یہ بظاہر ایک چھوٹا سا عمل ہے لیکن آخرت میں اللہ تعالیٰ کے یہاں اس کا بدلہ اس صورت میں دیا جائے گا کہ اس کے بدلہ اس کے گناہ بخش دیئے جائیں گے اور اسے جہنم کی آگ سے نجات مل جائے گی۔
اسی طرح ایک روایت میں وارد ہوا ہے کہ جو شخص صبح یاشام میں ان کلمات کو چار بار پڑھ لے گا اللہ تعالیٰ اسے جہنم کی آگ سے محفوظ فرما دیں گے:’’اللہم انی اصبحت ،اشھدک و اشھد حملۃ عر شک و ملائکتک و جمیع خلقک،انک انت اللہ لا الہ الا انت وحدک لا شریک لک ، و ان محمدا عبدک و رسولک‘‘۔(دیکھئے:سنن ابی داود، حدیث نمبر:۵۰۶۹)
لیلۃ القدر کی تلاش:
ان سب کے علاوہ ماہ رمضان کے آخری عشرہ میں لیلۃ القدر کی تلاش مستقل ایک عبادت کا درجہ رکھتی ہے،لیلۃ القدر کی فضیلت کے لیے قرآن پاک کی آیات :’’انا انزلناہ فی لیلۃ القدر،وما ادراک ما لیلۃ القدر،لیلۃ القدر خیر من الف شھر‘‘(سورۃ القدر:۱۔۳)ہی کافی ہیں کہ جن میں اللہ تعالیٰ نے وضاحت فرما دی ہے کہ ہم نے قرآن پاک کو لیلۃ القدر میں نازل فرمایا اور یہ کہ لیلۃ القدر ہزار مہینوں سے زیادہ افضل ہے۔
خود نبی ﷺ سے اس رات کی فضیلت سے متعلق کئی روایات منقول ہیں جبکہ بہت ساری روایات وہ بھی ہیں جن میں آپ ﷺ کا اس رات سے متعلق معمول نقل کیا گیا ہے،چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنھا روایت کرتی ہیں کہ آپ ﷺ فرمایا کرتے تھے کہ لیلۃ القدر کو رمضان کے آخری عشرہ کی طاق راتوں میں تلاش کرو(دیکھئے:صحیح بخاری، حدیث نمبر:۲۰۱۷) نیز اس رات میں عبادات کا خاص اہتمام کرنا چاہئے ساتھ ہی ساتھ اس رات میں کثرت سے دعا ئیں بھی کرنا چاہیے۔
احادیث میں جو دعائیں وارد ہوئی ہیں اگر وہ یاد ہوں تو بہت بہتر ہے ورنہ اپنی حالت کے موافق جو بھی دعا مناسب محسوس ہو اسے مانگنا چاہئے، حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے منقول ہے کہ آپ نے رسول اللہ ﷺ سے دریافت کیا کہ اے اللہ کے رسول! اگر مجھے لیلۃ القدر مل جائے تو میں کون سی دعا مانگوں؟ تو آپ ﷺ نے فرمایا کہ تم یہ دعا مانگ لو:’’اللھم انک عفو تحب العفو فاعف عنی‘‘(سنن ترمذی، حدیث نمبر:۳۵۱۳) کہ اے اللہ ! بے شک آپ بڑے معاف کرنے والے ہیں اور معاف کرنے کو پسند بھی فرماتے ہیں پس مجھے بھی معاف فرمادیجئے۔
کرنے کے کام:
الغر ض ماہ رمضان کی آمد سے پہلے پہلے ہر مسلمان کی دینی ذمہ داری ہے کہ وہ اس کے استقبال کی تیاری میں لگ جائے اور اس بات کی کوشش کرے کہ اس ماہ میں اس کی مغفرت ہو جائے اور وہ رمضان میں کچھ ایسے انداز سے اللہ تعالیٰ کی عبادت کر لے کہ اس عبادت کا اثر سال بھر باقی رہے اور اسے اپنے دل میں یاد الٰہی کی نورانیت محسوس ہوتی ہے، کیونکہ کیا پتہ آئندہ سال رمضان کی مبارک ساعتیں نصیب ہوں یا نہ ہوں!