مصنف – محمد فرقان فلاحی
بسم اللہ الرحمن الرحیم
ایک شخص نے اپنے گھر میں ذاتی میوزیم بنایا جس میں اس نے دنیا بھر کی نایاب، نادر اور عجیب وغریب چیزیں بہت محنت سے جمع کی تھیں۔ جب کبھی اس کا کوئی شناسائی اس کے شہر آتا تو اس کے میوزیم کو دیکھنے ضرور جاتا۔
ایک دفعہ اس کا ایک دوست اپنے کسی ساتھی کو لے کر رات کے وقت اس کے گھر پہنچا۔ یہ دوست اور اس کا ساتھی میوزیم دیکھنے کے لیے اتنے بے چین تھے کہ انہوں نے صبح ہونے کا بھی انتظار نہ کیا بلکہ رات ہی میں میوزیم دیکھنے کی گزارش کر ڈالی۔
صاحب خانہ نے ان کی خواہش کا احترام کرتے ہوئے اپنے نوکر سے کہا کہ مہمانوں کو میوزیم دکھا لاو۔
روشنی نہیں تھی تو کچھ نظر نہیں آ رہا تھا۔
اسی طرح جب انسان کے غلط کاموں کی وجہ سے اس کے دل میں اندھیرا پھیل جائے تو اسے آس پاس کے لوگوں میں بھی کوئی بھلائی اور اچھائی نظر نہیں آتی ہے۔ وہ اپنی سوچ کے اعتبار سے اپنے سامنے کھڑے انسان کے بارے میں فیصلہ کر لیتا ہے۔
جب بھی کسی انسان کو دیکھنا ہو اور اسے قریب سے جاننا ہو تو اس کو اپنے دل کی صفائی کے ساتھ دیکھیں
جس طرح میوزیم میں رکھی ہر چیز نادر ونایاب ہوتی ہے اور اس کی ایک تاریخ ہوتی ہے اسی طرح یہ کائنات ایک میوزیم کی طرح ہے اور میں بسنے والا ہر انسان اور ہر مخلوق بہت نادر و نایاب ہے بے مثال ہے۔
جس دن ہمارے دیکھنے کا انداز بدل جائے گا اس دن ہمیں اس میوزیم کی ہر چیز پیاری لگے گی اور ہمارے دل میں اللہ کی عظمت و محبت پیدا ہونے لگے گی۔